74

طنزو مزاح/ہمارا نوجوان/تحریر/انیلہ افضال ایڈووکیٹ

کہتے ہیں کہ افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہوتی ہے۔ جب بھی کسی ملک کے روشن مستقبل کا خیال آتا ہے تو نظریں اس قوم کی نوجوان نسل پر ٹک جاتی ہیں۔ نوجوان کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہیں کسی بھی قوم کے روشن مستقبل کا اندازہ اس قوم کے نوجوان نسل کی قابلیت سے لگایا جاتا ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کی بنیاد ہوتے ہیں ایسی بنیاد کی جس کے بغیر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی، مگر آج کے نوجوان کی بات کی جائے تو کیا یہ وہی نوجوان نسل ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ نئی نسل کو ہمیشہ ’کمزور‘ پکارا جاتا ہے، انھیں ’کاہل اور کام چور‘ قرار دیا جاتا ہے اور اپنے بڑوں کے مقابلے میں کم حوصلہ مند ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ لوگ گزشتہ کئی نسلوں سے تضحیک آمیز انداز میں کہتے آ رہے ہیں ’یہ آج کل کے بچے بھی نا۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ نوجوان نسل نئی صدی، نئی ہزاروی میں پیدا ہوئی ہے۔ اس نے انٹر نیٹ کی دور میں ہوش سنبھالا ہے۔ آرٹیفشل انٹیلیجنس کی آغوش میں پلنے والی یہ نسل تاریخ میں سب سے زیادہ سمجھدار اور انرجیٹک ہے۔ یقین نہ آئے تو ایک وزٹ ٹک ٹاک کا کر لیں۔ اتنے متناسب ٹھمکے آپ کو بالی وڈ اور لالی وڈ کی فلموں میں دکھائی نہ دیں گے جتنے اس نسل نے دکھا دیئے ہیں۔ یوٹیوب کا ایک چکر لگائیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ وطن عزیز میں کوئی بے روزگار نہیں بچا۔ ساری قوم ناچ ناچ کر پیسے کما رہی ہے۔ کاروبار کے طریقے بتانے کے لیے سینکڑوں چینلز موجود ہیں جو انتہائی کم انویسٹمنٹ پر آپ کو کروڑ پتی بننے کے ایسے ایسے نسخے بتائیں گے کہ اگر ان میں سے کسی ایک پر بھی خود عمل کر لیں تو یوں لوگوں کو بیوقوف بنا کر پیسے کمانے کی ضرورت نہ پڑے۔ ایک کثیر تعداد یوٹیوب پر بیٹھ کر آپ کو انگریزی سکھانے کی انتھک کوششوں میں مصروف ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے اگر انگریزی میں بات چیت شروع کر دیں تو زیادہ سے زیادہ ساتویں جملے سے یہ قومی زبان کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ باقی بچے ہوئے لوگ آپ کو ہر بیماری کا علاج بتا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق دنیا بھر کی تمام بیماریاں “مورنگا“ یعنی سوہانجنے سے ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ سر کے بالوں سے لے کر پیروں کے ناخن تک ہر بیماری کا علاج یا تو آپ کے کچن میں موجود ہے یا پھر پارکوں میں لگے ہوئے درختوں میں۔ گزشتہ وبا کے دنوں میں پاکستانی قوم نے تقریباً ہر جڑی، ہر بوٹی اور ہر بوٹے کا قہوہ پی ڈالا ہے۔ اور یہ سب انٹر نیٹ کی بدولت ہی ممکن ہو سکا ہے۔ البتہ مذہبی چینلز ابھی نوجوان نسل کی پہنچ سے باہر ہیں اس کے لیے انہوں نے اپنے ابا اور دادا ہائر کر رکھے ہیں اور کچھ تو اپنی دادیاں دکھا کر بھی روپے سمیٹ رہے ہیں۔
انسانی جینیاتی کے ماہرین کے مطابق اس وقت کرہ ارض پر چار اقسام کے لوگ موجود ہیں، ” میلنیئلز”, ” جنریشن زی”, ” جنریشن ایکس“ اور ” بے بی بومرز”. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بعد میں پیدا ہونے والے لوگ گزشتہ نسلوں کی نسبت کمتر ہیں؟ کیا میلنیئلز (یعنی وہ افراد جو 80 اور 90 کی دہائی میں پیدا ہوئے تھے) اور جنریشن زی (وہ نوجوان سنہ 2000 کے بعد پیدا ہوئے) جنریشن ایکس (وہ نسل جو 1965 سے لے کر 1980 کے درمیان میں پیدا ہوئئ) اور بے بی بومرز (وہ جو 1946 سے لے کر اور 1964 کے درمیان میں پیدا ہوئے) کے مقابلے میں زیادہ ’کمزور‘ اور ’کم ہمت‘ ہیں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آج کا نوجوان کوئی انقلاب لانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ وہ پرانے لوگ تھے جو تاریخ لکھ گئے۔ اب تاریخ نہیں لکھی جائے گی۔ تو ان کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ آپ موجودہ نوجوان نسل کو ہلکے میں نہ لیں۔ اگر یہ لوگ سکندر اعظم کے زمانے میں ہوتے تو وہ کبھی برصغیر کا رخ کرنے کی ہمت نہ کرتا۔ ان لوگوں نے انٹر نیٹ پر ایسی ایسی میمز بنا ڈالنی تھیں کہ سکندر اعظم شرم سے ہی مر جاتا اور کبھی تاریخ کا حصہ نہ بنتا اور نہ ہی ہسٹری کے سٹوڈنٹس کو یہ چیپٹر یاد کرنا پڑتا۔ اور تو اور ان لوگوں نے جد وجہد آزادی بھی گھر بیٹھے بیٹھے کر لینی تھی۔ کرنا ہی کیا تھا، ٹویٹر پر ٹرینڈ ہی تو چلانا تھا، “بن کے رہے گا پاکستان ، بٹ کے رہے گا ہندوستان.“ انگریز نے ٹاپ ٹرینڈ کے زیر اثر اپنی بساط شاہی لپیٹ کر گھر کی راہ لے لینی تھی۔ گول میز کانفرنسوں کے لیے لندن جانے کی بھی کوئی ضرورت نہ پڑتی، وڈیو لنک پر آزادی کا مقدمہ پیش بھی کر دیا جاتا اور فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر، واٹس ایپ، انسٹا گرام، سنیپ چیٹ پر ٹرینڈ چلا کر، ووٹنگ کروا کر نا صرف آزادی کی لڑائی لڑی جاتی بلکہ آزادی حاصل بھی کر لی جاتی۔ کیا ضرورت تھی موسموں کی شدت میں خوار ہونے کی، لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کرنے کی۔
یاد رکھیں! ہر آنے والی نسل اپنے بڑوں سے زیادہ ذہین، فطین اور محنتی ہوتی ہے۔ شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ نئی نسلوں میں وہ خصلتیں زیادہ ہوتی ہیں جنھیں ان سے پرانی نسلیں کمزوری کی نشانی سمجھتی ہیں۔ پرانے لوگ ہمارے نوجوانوں کو زیادہ سخت پیمانے پر جانچتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے مستقبل کے ضامنوں کو ان معیارات پر پرکھتے ہیں جو کہ اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ اب کیا ہمارا نوجوان خود کو محنتی اور طاقت ور ظاہر کرنے کے لیے گاڑی چھوڑ کر خچر پر ٹریول کرنے لگے، ٹیکنالوجی کی بجائے پتھروں کا استعمال کرنے لگے۔ اگر ایک لمحے کے لیے ہم مان بھی لیں کہ پرانی نسلوں نے بہت محنت کی ہے تب بھی ہم موجودہ نسل کو کوئی الزام نہیں دے سکتے۔ بھئی، ان کے بزرگوں نے محنت کی ہے تو اب بڑوں کی محنت پر عیش کرنا تو ان کا حق بنتا ہے۔ رہی بات آئندہ نسلوں کی تو وہ موجودہ نسل کی پرابلم نہیں ہے۔ وہ اپنا معاملہ خود دیکھ لیں گے۔ کیونکہ آنے والی نسلوں کے بزرگوں نے محنت نہیں، عیش کئے ہیں، ٹھمکے لگائے ہیں، موٹیویشنل تقریریں کی ہیں۔ علامہ اقبال، قائد اعظم، لیاقت علی خان، سر سید احمد خان، حالی برادران اور دیگر نے کیا سوچا، کیا چاہا؛ اس بات کی ٹینشن آج کا نوجوان کیوں لے۔ ان لوگوں نے جو کچھ سوچا یا کیا وہ اس دور کی ضرورت تھی یا اس وقت کا تقاضا تھا۔ آج تو راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے تو ہم ان کے غم میں کیوں گھلتے جائیں۔ ہمیں ہماری زندگی سکون سے گزارنے کا پورا حق ہے۔ گزشتہ نسلوں کے بارے میں کہا جاتا ہے، ” وہ آیا، اس نے دیکھا، اس نے فتح کر لیا۔“ موجودہ نسل کے بارے میں کہا جائے گا، “وہ پیدا ہوا, اس نے انٹر نیٹ پر زندگی گزاری، اور مر گیا“.
کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ دیگر معاملات کا تو علم نہیں، البتہ لباس کے معاملے میں یہ بات سچ لگتی ہے۔ خواتین کا لباس اوپر کی جانب جبکہ مردوں کا لباس نیچے کی جانب سرک رہا ہے۔ جس طرح لباس مختصر ہو رہا ہے، یقین واثق ہے کہ جلد ہی انسان پتوں سے جسم ڈھانپے گا یا پھر پتھر کے عہد کی طرح برتھ سوٹ میں گھومے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں