135

عالمی یوم حجاب / عبدالصبور شاکر فاروقی

عبدالصبور شاکر فاروقی

مروہ الشربینی کا تعلق مصر کے شہر اسکندریہ سے تھا۔ شادی ہوئی تو اپنے شوہر علوی علی عکاظ کے ساتھ جرمنی کے شہر ڈریسڈن آن بسیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خوب صورت بچے جیسی نعمت سے بھی نواز رکھا تھا۔ جرمنی آ کر پورا خاندان انتہائی خوش تھا۔ لیکن ان کی خوشی کو اس دن آگ لگ گئی جب سرِ بازار ایک مقامی لفنگے نے مروہ کو حجاب اوڑھنے پر گالیاں دیں۔ ایلیکس نامی اس نسل پرست متعصب غنڈے نے مروہ بہن کو دھمکیاں بھی دیں۔ جس سے ہراساں ہو کر داد طلبی کے لیے دونوں میاں بیوی نے کورٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہ فیصلہ ان دونوں کو بہت مہنگا پڑا۔ جج نے فریقین کو یکم جولائی 2009 کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ جب مروہ اپنے شوہر اور معصوم بچے کے ساتھ عدالت پہنچی تو ایلیکس نے کمرہ انصاف میں ہی خنجر سے دونوں میاں بیوی پر حملہ کر دیا جس سے مروہ موقع پر جاں بحق ہو گئی جب کہ اس کا شوہر علوی علی عکاظ شدید زخمی ہو گیا۔ جج نے صورت حال دیکھ کر پولیس بلا لی۔ پولیس نے ایلیکس کو دھمکانے کے لیے فائر کھول دیا جو قاتل کو لگنے کی بجائے مروہ کے شوہر کو جا لگا اور زخمی علوی مزید چکنا چور ہو کر گر گیا۔

دیکھنے میں یہ ایک معمول کا واقعہ لگتا ہے جس کا شکار اکثر اوقات یورپ کے مسلمان ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ واقعہ کئی اعتبار سے منفرد اور حیرت انگیز تھا۔ مثلاً یہ ایک عدالت میں جج کے سامنے پیش آیا۔ حالانکہ دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے ممالک میں بھی کمرہ عدالت میں ہتھیار لے جانا ناممکن نہ سہی، مشکل ضرور ہوتا ہے جو سیکورٹی اداروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ یہ واقعہ یورپ کے سب سے زیادہ پرامن ملک جرمنی میں پیش آیا جہاں اسلاموفوبیا بھی بہت کم ہے اور بظاہر مسلم امہ کے خلاف نفرت کے جراثیم بھی کم ظاہر کیے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ صلح جو، امن پسند اور اپنے کام سے کام رکھنے والے شمار کیے جاتے ہیں۔ تیسری بات یورپ و امریکہ اور دیگر مغربی ممالک جو خواتین اور بچوں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے! اس معصوم مصطفی کو انصاف نہ دلا سکے جس کی آنکھوں کے سامنے اس کی ماں اور باپ کو خنجر کی تیز دھار اور گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ذرا سوچیں! کیا یہ واقعہ اس معصوم بچے کے لیے ساری عمر کا روگ نہیں بن جائے گا؟ آخری بات جو سب سے زیادہ حیران کن بلکہ پریشان کن تھی کہ جرمن حکومت نے سرکاری طور پر اس واقعہ کی ذرا سی مذمت بھی گوارا نہ کی۔ جس کی وجہ سے مسلمان ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مصر نے اپنے دوست ممالک کے ساتھ مل کر بھرپور احتجاج کیا جس کے نتیجے میں نو دن بعد جرمنی نے اس پر اظہار افسوس کیا اور مجرم کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

حجاب کے خلاف یہ دائرہ مغرب سے پھیلتا ہوا مشرق میں بھی آن پہنچا ہے۔ مسلمانوں سے ازلی دشمنی پالنے والا بھارت… اپنے آقاؤں کی شہہ پا کر حجاب کے خلاف کھڑا ہو گیا۔ کرناٹک سمیت کئی اسکولوں میں حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔ باپردہ مسلمان بچیوں کے سر پر سے زبردستی حجاب کھینچے گئے۔ جنہوں نے حجاب اتارنے سے انکار کر دیا انہیں اسکول سے نکال دیا گیا یا امتحان دینے سے روک دیا گیا۔ گزشتہ برس ایک مسلمان طالبہ مسکان خان کو بھی حجاب پہننے کی بنیاد پر تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ شیرنی بن کر ڈٹ گئی۔ خوش قسمتی سے کالج انتظامیہ نے اپنی طالبہ کا ساتھ دیا جس سے کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بھارت میں اس واقعہ کو لے کر جہاں مسلم اقلیت میں جوش و جذبہ پیدا ہوا، وہیں بعض منصف مزاج ہندو بھی مسلمانوں کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو گئے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر مودی حکومت وقتی طور پر دفاعی پوزیشن میں آ گئی لیکن اندرون خانہ اب بھی حجاب کے خلاف سرگرمیاں جاری و ساری ہیں۔

شاید شہیدہ حجاب مروہ الشربینی کے خلوص کا ثمرہ ہے کہ نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالم کفر میں بھی حجاب بارے بیداری کی لہر پیدا ہوئی۔ بہت سی خواتین اس واقعہ کو پڑھ کر قرآن مجید تک پہنچیں اور پھر سچائی جان کر مسلمان ہو گئیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بعض مغربی ممالک جو اپنے سیکولر ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے، حجاب پر پابندی عائد کر رہے ہیں جن میں فرانس سرفہرست ہے۔ لیکن عوام میں اس کا شعور اتنا ہی زیادہ اجاگر ہو رہا ہے۔ علامہ مرحوم نے فرمایا تھا
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا، جتنا کہ دبا دو گے

اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے امت کے کچھ لوگوں نے ہر سال 4 ستمبر کا دن بطور یوم حجاب منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ لوگوں میں حجاب بارے شعور بیدار ہو اور تہذیب مغرب اور اسلام کے درمیان پیدا شدہ فاصلے نہ صرف کم ہوں بلکہ جو غلط فہمیاں جنم لے رہی ہیں ان کا تدارک بھی ہو سکے۔ اس دن مغربی ممالک میں مسلمان تنظیمیں انفرادی و اجتماعی سطح پر حجاب تقسیم کرتی ہیں جس کا بہت مثبت اثر ہوتا ہے۔ یوٹیوب پر ایسی ہزاروں ویڈیوز دستیاب ہیں جن میں عیسائی و لبرل خواتین حجاب پہن کر خوشی کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہمارے حجاب کا مثبت پہلو ابھرے اور اسلام کا صحیح اور واضح پیغام مغرب تک پہنچے تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہماری خواتین اسے اپنے لباس کا لازمی جزو بنائیں۔ اگر ہم ایک چیز کا دوسروں کو تو بتاتے ہیں لیکن خود عمل پیرا نہیں ہوتے تو یہ بات ” اوروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت” کے زمرے میں آ جائے گی۔ یاد رہے! حجاب کا حکم انسانی فیصلہ یا کسی خلیفہ و مفتی کا فتویٰ نہیں، قرآنی حکم ہے جس کی تائید احادیث مبارکہ اور امت کے تواتر سے بھی ہوتی ہے۔ اسلامی قانون کے مطابق اگر ایک چیز قرآن و حدیث سے ثابت نہ بھی ہو، تب بھی اگر اسے اکثر امت تواتر سے کرتی آئی ہو تو اس کا ماننا ضروری ہوتا ہے۔ جب کہ پردہ تو امت مسلمہ سے ہٹ کر عیسائی اور دیگر مذاہب کی خواتین بھی اب تک کرتی آئی ہیں۔ جن کی تائید انٹرنیٹ پر موجود ہزاروں تصاویر سے بھی ہوتی ہے۔ نیز عیسائی مذہبی خواتین یعنی ننیں اگر اب بھی حجاب کرتی ہیں اور اس وجہ سے انہیں مقدس سمجھا جاتا ہے تو مسلمان خواتین پر یہ پابندی کس لیے عائد کی جاتی ہے؟ مغرب کا یہ دہرا معیار سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگر ایک طرف یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا تو مسلم حجاب کا تعلق مذہب سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟ سچ کہا تھا یمنی نوبل پرائزر محترمہ ڈاکٹر توکل کامران صاحبہ نے کہ ”حجاب تو ترقی کی علامت ہے ورنہ بغیر کپڑوں کے تو انسان جنگلی شمار ہوتا تھا۔ جیسے جیسے بدن ڈھانپتا گیا، مہذب ہوتا گیا۔”


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں