87

عالمی یوم خواندگی اور ہم/تحریر/علی عبداللہ

تحریر/علی عبداللہ

1965 میں تہران میں ایک کانفرنس ہوئی، جس میں دنیا بھر کے وزراء تعلیم نے شرکت کی- اس کانفرنس کا مقصد تعلیم کی راہ رکاوٹوں کا جائزہ لینا اور دنیا بھر میں شرح خواندگی کو بڑھانے کی منصوبہ بندی تھا- اسی سال یونیسکو نے 8 ستمبر کو بین الاقوامی یوم خواندگی قرار دے دیا، جس کا مقصد پوری دنیا میں انفرادی، مجموعی اور معاشرتی سطح پر تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کرنا تھا- یوں یہ دن یوم خواندگی کے نام سے پوری دنیا میں رائج ہوا- گو کہ پہلے یوم خواندگی کے انعقاد سے لے کر اب تک پوری دنیا میں شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن آج کی جدید دنیا میں بھی خواندگی کی قابل تشویش صورت حال ہے- پوری دنیا میں تقریباً 771 ملین بالغ لوگ ناخواندہ ہیں جن کا تعلق دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے ہے- صرف امریکہ میں 32 ملین بالغ لوگ آج بھی ناخواندہ ہیں- کرونا وبا کے بعد یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 24 ملین لوگ اس وبا کے بعد سے رسمی تعلیم کی جانب نہیں لوٹ سکے، جن میں 11 ملین صرف خواتین ہیں- یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ پڑھا لکھا ہونے اور ان پڑھ ہونے میں کتنا فرق ہے- ایک امریکی صدر نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ایک ان پڑھ اور ایک پڑھا لکھا کسی بھی وجہ سے چور بن جائیں اور وہ دونوں سونے سے بھری ریل میں سفر کر رہے ہوں تو ان پڑھ آدمی ریل کے ایک ڈبے سے معمولی سا سونا چرا کر خوشی محسوس کرے گا مگر پڑھا لکھا چور پوری ریل کو ہی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرے گا- بہرحال یہ تو ایک سطحی سی مثال تھی-

مریم ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق خواندگی کا معنی ہے،
“the quality or state of being literate: educated…able to read and write.”
یعنی پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہونا- مگر آج کل اس ترقی یافتہ دور میں فقط لکھنے اور پڑھنے کی اہلیت ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ انفرادی سطح پر نظریاتی اور فکری سوچ پیدا کرنے کی اہلیت لازم ہے- اس کے ساتھ ساتھ مروجہ زبان کو احسن انداز میں سیکھنے اور اس میں جاذبیت پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے- ایسا نصاب تعلیم بھی درکار ہے جو تعلیم کے جدید تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ شعوری سطح پر آزادانہ سوچنے اور سوال کرنے کا اہل بھی بنا سکے- یونیسکو کے ایک اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہر لڑکے اور لڑکی کو مساوی بنیادوں پر مکمل مفت اور معیاری پرائمری و سیکنڈری تعلیم فراہم کی جائے گی، جس سے مؤثر نتائج بر آمد ہو سکیں- تاریخ کے ورق پلٹیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ رومی سلطنت نے یونانی تہذیب کے زوال کے خلا کو پر کیا اور اسلام نے مملکت روم کے زوال سے پیدا ہونے والے تہذیبی خلا کو پر کیا- حیرت ناک بات یہ ہے کہ دونوں کے زوال میں ایک مشترک بات تعلیم سے دوری بھی ہے- اقبال نے کہا تھا،
“سواد رومۃ الکبری میں دلی یاد آتا ہے”
ایک جگہ پڑھا تھا کہ مشرق میں دلی سے بڑی مملکت اور مغرب میں روم سے بڑی سلطنت کبھی قائم نہیں ہوئی- روم کے زوال کی ایک اہم وجہ ان کا تعلیم سے دور ہونا اور دیگر فنون میں دلچسپی رکھنا تھا- وہ سپاہی،اعلی افسر،شاعر،مقرر،ایکٹر اور کھلاڑی تو بن گئے مگر تعلیم و تدریس کا نظام انہوں نے غلاموں کے حوالے کر دیا تھا- لکھنے پڑھنے کا اکثر کام غلاموں کے سپرد تھا- ان کے ہاں ایک اور معاملہ یہ بھی تھا کہ غریب بچوں کے لیے ادنی معیار کی تعلیم تھی جبکہ اعلی تعلیم صرف امراء کے بچے ہی حاصل کر پاتے تھے اور اس میں بھی تاریخ، جغرافیہ اور سائنس کو نچلے درجوں میں رکھا جاتا تھا- یوں اہل روم علوم عقلیہ کی طرف توجہ نہ دے پائے اور ان میں کوئی بڑا فلسفی، سیاست دان، ماہر اقتصادیات یا سائنسدان پیدا نہ ہو سکا- آغا افتخار حسین کے نزدیک اس بات سے یہ سبق نکلتا ہے کہ اہل فکر کی نظر دوربیں ہونی چاہیے اور یہ دوربینی، تجربے، حقیقت پسندی اور ان علوم کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے جو فکر انسانی کا ماحصل ہیں اور تجربے اور تعقل کا نچوڑ- مشرق کی صورت حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے- تعلیمی نظام کے فرق یعنی عام بچوں اور امرا کے بچوں کی تعلیم میں فرق ہمارے ہاں عام دیکھا جا سکتا ہے-

ناخواندگی اور ناقص تعلیمی نظام کی کافی وجوہات ہیں- بہت سے ممالک اپنے نظام تعلیم کے لیے طویل مدتی سطح پر بجٹ کا زیادہ حصہ مختص نہیں کر پاتے جس وجہ سے بہت سے ایسے سکول وجود میں آ جاتے ہیں جو والدین سے بھاری فیسیں بٹورتے ہیں، لیکن بدلے میں ایسی معیاری تعلیم نہیں فراہم کر پاتے جو انہیں انفرادی اور معاشرتی سطح پر مضبوط بنا سکے ۔ اس کے لیے باقاعدہ ایک مضبوط قومی نظام تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے جو اساتذہ پر بھرپور توجہ دینے کے ساتھ ساتھ طلبہ کو بھی جدید تعلیمی تقاضوں پر پورا اترنے کے قابل بناتی ہے- معیاری تعلیم کے لیے معیاری اور قابل اساتذہ کا ہونا بہت ضروری ہے- ہر وہ جگہ جہاں نوجوانوں کی صلاحیتیں نکھرتی ہیں اور بچوں میں تعلیم کا شوق پیدا ہوتا ہے وہاں ان معیاری اساتذہ کا کردار شامل ہوتا ہے، جو نہ صرف طلباء کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہیں، بلکہ جاب مارکیٹ کے ٹرینڈ بھی سیٹ کرتے ہیں ۔ طالب علم اپنے استاد کے اخلاق و قابلیت کا عکس ہوتا ہے- بدقسمتی سے ہمارے اکثر اساتذہ بہترین الفاظ اور بلند تخیل سے خالی ہیں- وقت کی پابندی، ڈاک خانے کے فوائد، ریل کا سفر، میرا پسندیدہ دوست، میرا سکول وغیرہ ہی اب تک کے موضوعات ہیں جن کو رٹ کر طلبہ اپنی ذہانت کا لوہا منواتے ہیں- ایسے مضامین طلبہ کے معیار ادب اور تخیل میں بلندی نہیں لا سکتے- قوموں کے شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ نامی کتاب کے مصنف آغا افتخار حسین کے نزدیک اس طرح کے موضوعات نے ہماری طبیعتوں کو پست اور دقیانوسیت پسند بنا رکھا ہے- ہمارے اداروں میں ہزاروں ملٹن، نیوٹن، شیکسپئیر، ورڈزورتھ، اقبال، شبلی، ابوالکلام پیدا ہوتے ہیں، لیکن وہ اس پھول کی طرح ہیں جو ریگستان کی تنہائیوں میں کھلے اور ویرانوں کی وسعت میں اپنی خوشبو کھو کر مر جائے- اس کی وجہ غلط تربیت اور جہالت کے سوا کچھ نہیں ہے- ہمارے ہاں کتنے اساتذہ ہیں جو سلیبس رٹانے کے علاوہ خود مشہور مصنفین کا باقاعدہ مطالعہ کرتے ہیں اور طلبہ کو بھی اس پر آمادہ کرتے ہیں- سکول ہو یا کالج اور اب یونیورسٹیاں بھی ایسے اساتذہ سے محروم ہیں جو تعلیم کو پیشے سے قطع نظر ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہیں- ان کے یہاں تدریس ایک آسان پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے اور بس- جس ملک میں اساتذہ کرام مروجہ ملکی زبان اردو میں کوئی درست سطر نہ لکھ سکتے ہوں وہاں نسلیں کیسی پیدا ہوں گی- ہمیں انگریزی تو آسان لگتی ہے اور اسے خواندگی کی سب سے بڑی علامت بھی سمجھتے ہیں، لیکن برصغیر کے ایک انگریز وائسرائے نے لکھا تھا، “ہماری اعلی تعلیم کا ذریعہ انگریزی زبان ہے- اس کا نتیجہ ظاہر ہے- طلبہ ایک غیر زبان کے ذریعے دقیق علوم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں- عام طور پر ان کی انگریزی دانی بہت معمولی ہوتی ہے- اس لیے وہ نصابی کتب رٹنے پر مجبور ہوتے ہیں اور صفحے کے صفحے نہیں بلکہ کتابیں کی کتابیں رٹ ڈالتے ہیں جنھیں وہ بہت ہی کم سمجھتے ہیں- ” آج بھی ہمارے ہاں یہی صورت حال ہے اور اسی پر ہم عرصہ دراز سے نوحہ کناں ہیں-
انسان کے کردار کو سنوارنے اور اسے مہذب زندگی کے آداب سکھانے اور ذہنی سکون عطا کرنے میں جتنا حصہ مذہب کا ہے کسی اور فکری عمل کا نہیں- مسلم دنیا خصوصا پاکستان میں مدارس اور علماء علمی و فکری اصلاح کے اہم ترین نمائندے ہیں- ان کے ہاں عربی معیاری اور بہترین انداز میں پڑھائی جاتی ہے لیکن ان پڑھے جانے والے علوم کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے معیاری اردو ادب کی تعلیم بے توجہی کا شکار ہو جاتی ہے- وہ عربی و فارسی تراکیب کا خوب استعمال کرتے ہیں، مگر عوام الناس تک ان کا اصل پیغام اس ذریعے سے نہیں پہنچ پاتا- بقول مفتی ابو لبابہ، معیاری اردو ادب پر کمزور گرفت کی بنا پر عام لوگ نام نہاد مذہبی اکیڈمیوں کی جانب راغب ہوتے ہیں، جہاں کے لوگ اپنے زبان و بیان کی چاشنی سے ان کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں- ہمارے مدارس کے اکثر لوگ نہ تو اردو کے سکہ بند استادوں کا کلام پڑھتے ہیں، نہ ہی ادبی مجالس میں شریک ہو کر لب و لہجہ اور تلفظ و املا درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں- نہ انہیں الفاظ کی نشست و برخاست، باہمی ربط اور صوتی حسن پر توجہ دینا اہم لگتا ہے- گو کہ اب اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے مگر یہ سب ابھی عام مدارس کی سطح تک نہیں پہنچا- شرح خواندگی میں معیاری بدلاؤ اور اضافے کے لیے عصری اور دینی اداروں کو یکساں کام کرنا بہت ضروری ہے-

غیر معیاری تعلیم کی ایک اور بنیادی وجہ اساتذہ کی کم تنخواہیں بھی ہیں ۔ پوری دنیا میں اساتذہ کو کم تنخواہ پر گذارہ کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات تو انہیں دو دو ماہ کی تنخواہ لیے بغیر اپنی خدمات سر انجام دینا پڑتی ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 40 سے زائد ممالک میں تو قابل اور معیاری اساتذہ دستیاب ہی نہیں ہیں، جو 2030 کی عالمی ایجوکیشنل پالیسی کو پورا کر سکیں ۔ چند سال پہلے ایجوکیشن کمیشن نے تعلیم کے لیے عالمی فنانس 44 بلین ڈالر سالانہ کرنے کی اپیل کی تھی تاکہ تعلیم پر زیادہ خرچ ہو سکے، کیونکہ ایک اندازے کے مطابق 2030 تک دنیا کی تقریباً پچاس فیصد ملازمتیں جن کی تعداد دو بلین بنتی ہے مشینوں اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے ختم ہو جائیں گی- اس کے علاوہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں لوگوں کے رہن سہن، سیکھنے کے طریقہ کار اور ذریعہ تعلیم میں بدلاؤ آ رہا ہے- یہاں بھی ٹیکنالوجی کی غیر مساوی تقسیم آڑے آ کر ناخواندگی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ دنیا مان چکی ہے کہ زندہ قوم وہی ہے جس کے خزانے جدید علوم و فنون سے مالا مال ہوں، جس کی لائبریریاں، جس کے کتب خانے لاثانی ہوں- کوئی قوم شاندار نہیں بن سکتی، معزز نہیں ہو سکتی ارتقا و عروج کی بلندیوں پر نہیں پہنچ سکتی، جب تک اس کا لٹریچر(ادب)شاندار نہ ہو- خواندگی کا مطلب اب فقط نام لکھنے پڑھنے تک محدود نہیں رہا- اب جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ایسی علمی و فکری اور نظریاتی سطح پر تعلیمی پالیسیاں ترتیب دینا ہوں گی جس کے ذریعے آنے والی نسل ایک باشعور، نظریاتی اور اپنی تہذیب و ثقافت کی علمبردار قوم بن کر ابھر سکے- اس کے علاوہ یکساں نصاب تعلیم ہو جو امیر اور غریب کی تعلیم کا فرق مٹا سکے اور دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ذہنوں کی آبیاری کر سکے-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں