120

عصر حاضر میں مطالعہ کی اہمیت اور ضرورت/تحریر/محمد طاہر علی حیدر

ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ علم ہی سابقہ و موجودہ اقوام و ملل کی ترقی و عظمتِ رفتہ کی بنیاد ہے۔
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً۔
’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ ‘‘
(البقرة، 2: 30)
یعنی ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور علم عطا فرمایا پھر فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ علم کی برتری کی وجہ سے فرشتوں نے سجدہ کیا،لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقی علم کہاں سے میسر آتا ہے جو انسان کی رفعت و برتری، ترقی و فلاح اور ہدایت کا عظیم ذریعہ بنتا ہے؟
حقیقی علم کا بنیادی مصدر کتاب مبین یعنی قرآن کریم ہے کتاب مبین کا مطالعہ انسان کو ہدایت اور ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo
’’یہ وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں،یہ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ ‘‘
(البقرة، 2: 1)
اللہ رب العزت نے بے راہ رو اور گمراہی میں مبتلا لوگوں کی رہنمائی کے لیے اپنے برگزیدہ بندوں یعنی انبیاء کو مبعوث فرمایا اور انہیں صحیفے اور کتابیں عطا فرمائی تاکہ لوگ ان صحیفوں اور کتابوں کو پڑھ کر حقیقی علم تک رسائی حاصل کریں۔
مطالعہ کتب کی اہمیت اہلِ اسلام کے نزدیک ایک مسلّم امر ہے جس کا انکار کسی سطح پر ناممکن ہے۔ کیونکہ خطابِ الہٰی کا پہلا لفظ ہی اقراء (پڑھو) ہے، اسی لفظ سے اللہ جل جلالہ نے اپنے محبوب پیغمبر خاتم النبین و مرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا آغاز فرمایا ہے اور یہی پہلا حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔
دنیا کے مختلف علوم و معارف اور اسراو رموز اگر ہمیں کسی جگہ سے دستیاب ہو سکتے ہیں، وہ کتاب ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ علم و حکمت کو کتاب کی صورت میں جمع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
امام حاکم بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قیدوا العلم بالکتابة.
’’علم کو کتاب میں قید کرو یعنی لکھا کرو۔ ‘‘
اسی بنا پر علماء و مفکرین کتاب کو کنز اور خزانہ قرار دیتے تھے۔
حافظ ابن جوزی فرماتے ہیں:
إذا وجدت کتاب جدیدا فکأنی وقعت علی کنز.
’’اگر مجھے کوئی نئی کتا ب ملتی تو گویا مجھے خزانہ حاصل ہو ا۔ ‘‘
کتاب قاری کو اپنے دور کے مصنفین کے افکار و نظریات اور احوالِ زمانہ سے آگاہ رکھتی ہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نئے افراد کی مضبوط کھیپ تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جہاں قاری کتب کے ذریعے حالاتِ حاضرہ سے آگاہی حاصل کرتا ہے وہاں کچھ کتب اسے دورِ قدیم کے نامور ائمہ، محدثین، فلاسفہ، حکماء اور مفکرین سے بھی فیضیاب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یعنی دورِ جدید میں رہتے ہوئے اگر دورِ قدیم تک کوئی رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا واحد ذریعہ کتاب ہے۔

ہمارے معاشرے میں وقت کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے خاص کر نوجوان طبقے میں مطالعہ کا رجحان کم ہو چکا ہے, جس کے نتیجے میں لاعلمی اور ذہنی الجھاؤ بڑھ رہا ہے۔ مطالعہ کتب ہمیشہ سے انسان کی ضرورت رہی ہے با شعور انسان کے لیے یہ غذا کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کو تنہائی کا بہترین ساتھی کہا جاتا ہے۔ مطالعہ کتب غیر محسوس انداز سے انسان کی ذہنی نشوونما اور کردار میں مثبت تبدیلیاں لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے, شرط یہ ہے کہ انسان مثبت کتب سے اپنا رشتہ استوار رکھے۔

دنیا میں جتنے بھی عظیم رہنما لوگ گزرے ہیں ان میں ایک چیز قدر مشترک رہی ہے کہ انہوں نے مطالعہ کتب کو اپنی عادت بنایا۔ نیلسن منڈیلا ایک نامور اور جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خاتمے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اس جدوجہد کے دوران انہوں نے زندگی کے ستائیس سال پر محیط لمبا عرصہ قید میں گزار دیا۔ قید میں رہنا کسی قسم کی ذہنی اذیت سے کم نہیں ہے۔ تکلیف دہ حالات میں انسان کی ہمت جواب دینے لگتی ہے۔ اس کو کچھ حد تک وہ لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو کرونا وائرس کی وجہ سے گھروں میں محدود رہے اور اپنے سوشل سرکل کو کم کر چکے تھے۔ لیکن اپنی قوت ارادی کو اس مشکل میں مضبوط رکھنے کے لیے اس قید کے دوران نیلسن منڈیلا نے بھی اپنا تعلق مطالعہ اور کتب کے ساتھ بڑھا لیا اور اپنے جذبے سے زندگی کے نصب العین کے حصول کی جدو جہد کو کمزور نہیں پڑنے دیا۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مطالعہ کتب زندگی کی تاریکیوں میں روشنی کی کرن کی مانند ہے۔ جو انسان کو ہارنے نہیں دیتی۔

آج کی نوجوان نسل میں مطالعہ کی اہمیت اور قدر کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مطالعہ کے لیے مسلمان کی زندگی کا سب سے زیادہ وقت کا حقدار دین کا علم ہے۔ اس لیے قرآن و حدیث کےمطالعہ کا رجحان نوجوان نسل میں پیدا کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ دین الٰہی کے درست فہم کے ذریعے ہی انسان اور خاص کر کے مسلمان اپنے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی سمیٹ سکتے ہیں۔ دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللّٰہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے بہترین تعلق استوار کرنے کے لیے مستند کتب کا مطالعہ بے حد فائدہ مند ہے۔
جاپانی قوم کے بارے میں تو سنا ہوگا کہ انہوں نے دنیا کوبہت سی مثبت چیزیں دی ہے۔ اس کارازان کے محنت کے ساتھ ساتھ ان کا کثرت مطالعہ ہے۔ مجتبیٰ حسین اپنے سفرنامہ جاپان چلوجاپان میں لکھتے ہے:’’جاپانی لوگ ٹرین میں سفر کرتے وقت ’’مون برت‘‘ رکھ لیتے ہیں۔ پلیٹ فارم پرکھڑے کھڑے کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔ ٹرین آتی ہے توکتاب میں انگلی رکھ کر ٹرین میں داخل جاتے ہیں اور سیٹ پر بیٹھتے ہی کتاب کھول کرپڑھنے میں لگ جاتے ہیں۔ ہمیں اکثریوں محسوس ہوتاہے جیسے ہم کسی لائبریری میں بیٹھے ہیں اورلائبریری کے نیچے پہیے لگادئے گئے ہیں۔ جاپانی یاتو پڑھتے ہیں یالکھتے ہیں ‘‘۔

مزیدلکھتے ہیں :
دنیا بھرمیں ان کے اشاعتی کاروبار کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے، ہم نے محسوس کیاکہ جاپانی یاتوپڑھتا ہے یا لکھتاہے۔ باتیں بہت کم کرتاہے۔ جہاں چاہیں لوگ کتابیں خریدنے اورپڑھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ٹوکیومیں ایک محلہ ہے کنداجوشہنشاہ جاپان کے محل سے متصل ہے۔ اس میں ہرطرف کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ کتابوں کی اتنی بڑی دکانیں ہم نے کہیں نہیں دیکھیں۔ ہوٹلوں اورتفریح گاہوں میں بھی کتابوں کی فروخت کاانتظام موجودہے۔ کتاب خریدنے والوں کواپنے کو اپنے علم کی پیاس بجھانے کے لئے بہت دورجانا نہیں پڑتا۔ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔ چارپانچ سال کے کم عمربچے ہی بڑے ذوق وشوق سے کتابیں خریدتے ہیں بلکہ انہیں پڑھتے بھی ہیں۔ جاپان کی آبادی تقریباً ساڑھے گیارہ کروڑ ہے اورسال بھرمیں تقریباً ۸۰/کروڑکتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ گویاہرجاپانی سال بھرمیں ساڑھے چھ کتابیں ضرورخریدتاہے(ایک ہم ہیں کہ پڑھنے لکھنے کے معاملے میں اتنی شہرت رکھنے کے باوجود پچھلے تین برسوں میں ہم نے کوئی کتاب نہیں خریدی‘‘۔

قابل تعجب ہے کہ آج ذرائع ابلاغ جس سُرعت کے ساتھ مطالعے کے مواقع فراہم کررہاہے، لوگ اتنا ہی پڑھنے کی طرف کم مائل ہوتے دکھائے پرتے ہیں۔ NOP کی پیش کردہ ایک تجزیہ کے مطابق ایک انسان ہفتے میں اوسطاً 16.6گھنٹے ٹیلی ویژن کے سامنے گزارتاہے، آٹھ گھنٹے ریڈیو سنتاہے، 8.9گھنٹے کمپویٹر اورانٹرنیٹ کی نذرکرتاہے۔ جبکہ جوچیز انسان کی فکری نشوونمامیں سب سے کلیدی رول اداکرتی ہے، یعنی مطالعۂ کتب، اُس کے لیے سب سے کم یعنی 6.5گھنٹے ہی مختص کرپاتاہے۔

یہ ساری باتیں اس ضرورت کی متقاضی ہیں کہ مطالعہ کتب کا ذوق پچپن سے ہی بڑھانا چاہیے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ رول اساتذہ, مدرس اوراسکول انتظامیہ ادا کرسکتی ہے۔ اپنے اسکول و مدارس میں اچھی لائبریری قائم کرنے کے بعد طلبہ کوکتابوں کا مطالعہ اوربعد میں حاصل مطالعہ کوبیان کرنے کا رواج اگرقائم کیا جائے توبچپن ہی سے ایک بچے کے اندریہ عادت گھرکرجائے گی۔ ساتھ ہی والدین کوچاہیے کہ اپنے بچوں کونئی نئی کتابیں خرید نے پر اُن کی ستائش کریں۔ مشاہدے میں آیاہے کسی جگہ اگربچہ شوق سے کوئی کتاب خریدبھی لیتاہے، تووالدین کے ڈرسے اسے چوری چھپے گھرکے اندرلے جانی پڑتی ہے۔ جس کی وجہ یہ کہ والدین کتابوں کی فروخت پرخرچہ کرنے کو پیسوں کے ضیاع سے تعبیرکرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عالم اسلام جہالت، بے روزگاری، افلاس، مظلومی اور جمود جیسے مہلک عناصر میں مبتلاہوچکی ہیں۔ لہٰذااگر ملّت اسلامیہ دوبارہ سے دنیامیں عزت اورعروج حاصل کرناچاہتی ہے توہمیں چاہیے کہ علم کی اس متاع گم گشتہ کوپھرسے حاصل کرنے کی فکرکریں۔ کیونکہ علم کے اس زینے سے گزرے بغیرکامیابی کی بلندی تک پہنچنانہ صرف مشکل بلکہ ایک ناممکن عمل ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں