قائد اعظم محمد علی جناح
مسز عصمت اسامہ
قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی ایک ایسی کھلی کتاب ہے جس میں ماضی کے عظیم الشان واقعات بھی ہیں اور حال کے لئے قابل عمل نمونہ بھی موجود ہے ۔کون جانتا تھا کہ 25 دسمبر 1876ء کو گجرات میں پیدا ہونے والا یہ دبلا پتلا بچہ ایک دن اسلامیان برصغیر کی ڈوبتی کشتی کو خطرات سے بچا کر ساحل۔ مراد تک لے آۓ گا! اور لاکھوں مسلمان اسکی آواز پر لبیک کہتے ہوۓ ہجرتمدینہ کی سنت پر عمل پیرا ہوکر مملکت خدا داد پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔واقعی اللہ تعالی’ اپنے خاص کاموں کے لئے خاص طرح کے افراد کو چنتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان تحفہ خدا وندی ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح بھی تحفہ خداوندی تھے۔جن کی خوبصورت شخصیت اور اوصاف وکردار نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک محور اور نصب العین پر متحد ہوکر جدو جہد کرنے پر تیار کیا۔ظاہر و باطن کے کھرے محمد علی جناح جو دینی و عصری علوم سے آراستہ،تدبر اور دلیل کے ہنر سے مالامال ،خوداعتمادی اور خودداری سے مزین اپنے مضبوط کردار اور مستقل مزاجی کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں میں ایک قابل بھروسہ لیڈر تھے۔
وطن عزیز پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا جبکہ موجودہ دور کے بعض نام نہاد دانشور قائد اعظم کو ایک سیکولر یا لبرل (یعنی بے دین)انسان کے طور پر پیش کرنے کی اپنی سی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں ۔اپنے اس تحقیقی آرٹیکل میں قائد اعظم کے فرمودات اور تقاریر کے حوالہ جات پیش کر کے انکا اعادہ کرنا مقصود ہے۔آپ نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھر کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوۓ 12 جون 1947ء کو فرمایا :
“مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا ؟میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا ؟مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت سے بیان کردیا تھا ۔الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائ کے لئے موجود ہے اور تاقیامت رہے گا”۔
مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کے اصول کو اجاگر کرتے ہوۓ 11جولائی 1946ء کو حیدرآباد دکن کے جلسہ عام میں قائد اعظم نے فرمایا :
“اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بناکر شیوہ صبرو رضا پر کار بند ہوں اور اس ارشاد خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائ بھائ ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئ ایک طاقت یا کئ طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتیں ۔ہم فتح یاب ہوں گے ،اسی طرح جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران و روم کی سلطنتوں کے تختے الٹ دئیے تھے “۔
اسلامی ریاست میں اسلامی قوانین کی عملداری کے بارے میں 1945ء کو پیر صاحب مانکی شریف کے نام قائد اعظم نے اپنے خط میں لکھا :
“یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسی دستورساز اسمبلی جس میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہوں وہ مسلمانوں کے لئے ایسے قوانین منظور کرے گی جو شریعت کے قوانین سے مطابقت نہ رکھتے ہوں گے اور مسلمان کسی بھی حالت میں اس بات کے پابند نہیں ہوں گے کہ وہ کسی غیر اسلامی قانون کی پابندی کریں “۔(بحوالہ اسلام کا سفیر ،محمد متین خالد)
14 فروری 1947ء کو سبی بلوچستان کے شاہی دربار میں تقریر کرتے ہوۓ اسوہء حسنہ کو راہ نجات قرار دیا۔
آپ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں 8مارچ 1944ء کو تحریک پاکستان کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوۓ کہا :
“مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہء توحید ہے۔نہ وطن نہ نسل ۔ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے جزبہء محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال، یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا “۔
قائد اعظم نے 14 اگست 1947ء کو دستورساز اسمبلی کے افتتاح کے موقع پر ماؤنٹ بیٹن کی تقریر کا جواب دیتے ہوۓ اپنے اسی نقطہء نظر کو دہرایا۔ ماؤنٹ بیٹن نے اقلیتوں کے حوالہ سے مغل بادشاہ اکبر کی فراخدلی کا ذکر کیا تھا جس کے جواب میں قائد اعظم نے کہا :
“اکبر بادشاہ نے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لئے کوئ نئ بات نہیں۔اسکا آغاز تیرہ سو سال پہلے ہوگیا تھا جب ہمارے نبی کریم ص نے فتح کے بعد نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر یہودیوں اور عیسائیوں سے فراخدلانہ سلوک کیا اور انکے عقائد کااحترام کیا۔مسلمانوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے “۔یہاں بھی انھوں نے میثاق مدینہ کا حوالہ دیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما اور نمونہ قرار دیا۔(بحوالہ ھلال)
قول و فعل کی ہم آہنگی نے قائد اعظم کی شخصیت میں تاثیر اور کشش پیدا کردی تھی کہ لوگ انکے جلسوں میں کھنچے چلے آتے تھے۔ایک طویل مدت سے ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم کا مورال اور حوصلہ بلند رکھنا بھی ایک اہم کام تھا جو آپ نے اپنی ولولہ انگیز تقریروں اور جلسوں کے ذریعے بخوبی سر انجام دیا۔قائد اعظم نے فرمایا:
“ان شاءاللہ پاکستان کے نظام حکومت کی بنیاد لا الہ الا اللہ ہوگی اور یہ ایک فلاحی و مثالی ریاست ہوگی۔بعض لگ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان بن بھی گیا تو چند دن بھی قائم نہ رہ سکے گا لیکن مجھے پختہ یقین ہے کہ اللہ تعالی’ اسے ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا “۔(بحوالہ کتاب اسلام کا سفیر از محمد متین خالد میں ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کا مضمون “قائد اعظم سیکولر نہیں تھے”)
باباۓ قوم کی دور اندیش بصیرت انہیں مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز سے بھی آگاہ رکھتی تھی۔مسلم لیگ کنونشن دہلی 17 اپریل 1946ء کو آپ نے یوں خطاب کیا :
“ہماری یہ منشا نہیں ہے کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ اختلافات اور جھگڑے شروع ہو جائیں ۔ہمارے سامنے بہت کام ہوں گے۔اس طرح (ہندو) برادران کو اپنی مملکت میں بہت سے کام کرنے ہوں گے لیکن اگر وہ ہماری اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی شروع کردیتے ہیں اور انکو ستاتے ہیں تو پاکستان ایک خاموش تماشائی نہ بنے گا۔اگر گلیڈ اسٹون کے زمانے میں برطانیہ اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر امریکہ میں مداخلت کرسکتا تھا تو اگر ہندوستان میں ہماری اقلیتوں پر مظالم کئے گئے تو ہمارا مداخلت کرنا کیوں کر حق بجانب نہ ہوگا ؟”
وہ بانی پاکستان تھے لیکن انکساری کا یہ عالم تھا کہ وی آئ پی پروٹوکول جیسی خرافات سے کوسوں دور تھے۔14 اگست 1947ء کی روح پرور شام تھی جب گورنر ہاؤس کے وسیع چبوترے پر قائد اعظم مسکرا مسکرا کر لوگوں سے مبارک باد وصول کر رہے تھے۔ایسے میں ایک غیر ملکی صحافی نے کہا کہ آپ کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ نے ایک آزاد ملک حاصل کر لیا ہے۔جس پر آپ نے جواب دیا کہ میں خدا کا شکر بجا لاتا ہوں کہ پاکستان بن گیا لیکن اسکا بانی میں نہیں ہوں۔صحافی نے تعجب کا اظہار کرتے ہوۓ کہا ،تو پھر اس ملک کا بانی کون ہے ؟
قائد نے جواب دیا :”ہر مسلمان “(مراد علی شاہد کا مضمون)
اصول پسندی اور دیانتداری کا یہ عالم تھا کہ ایک بار قائد اعظم کے دفتر کا فرنیچر آرڈر کیا گیا جس کا بل سینتیس روپے تھا ۔آپ کو قومی خزانے سے ادائیگی کے دستخط کے لئے بل پیش کیا گیا تو پوچھا کہ اس میں یہ سات روپے کی فالتو کرسی کیوں آرڈر کی ہے ؟ سیکرٹری نے کہا کہ سر یہ فاطمہ جناح صاحبہ کے لئے ہے۔جب وہ دفتر آتی ہیں تو انکے بیٹھنے کے لئے منگوائی ہے۔قائد اعظم نے سات روپے کاٹ کے تیس روپے کا بل منظور کرتے ہوۓ فرمایا:اگر فاطمہ کو کرسی کی ضرورت ہے تو کرسی کے سات روپے فاطمہ سے جاکے وصول کرو۔قومی خزانہ نہیں دے گا”۔اور اس طرح قومی خزانے سے اقربا پروری کا دروازہ بند کردیا ۔(اردو صفحہ)
قیام پاکستان کے بعد کا ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ ایک دن برطانیہ کے سفیر نے آپ کو آگاہ کیا برطانیہ کے بادشاہ کا بھائ آج پاکستان کے ایئرپورٹ پہنچ رہا ہے۔آپ (گورنر جنرل) انہیں لینے ایئرپورٹ جائیے گا ۔قائد اعظم نے انتہائ دبدبے سے کہا :
آپ کے بادشاہ کے بھائ کو ایئرپورٹ لینے ایک شرط پہ جاؤں گا کہ کل جب میرا بھائ برطانیہ جاۓ گا تو آپ کا بادشاہ جارج اس کو لینے ایئرپورٹ جاۓ گا۔ یہ سن کر سفیر اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔(یعنی خارجہ پالیسی میں برابری کا اصول رکھا)
قیام پاکستان سے دو سال قبل کا واقعہ ہے کہ مولانا حسرت موہانی دہلی میں قائد اعظم سے ملنے انکی رہائشگاہ پر گئے لیکن ملازمین نے کہا کہ اس وقت وہ کسی سے نہیں ملیں گے۔چنانچہ مولانا وہیں نماز ادا کر کے ٹہلنے لگے تو ایک کمرے سے کسی کے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز آئی۔ انہوں نے کھڑکی سے جھانکا تو مولانا کے الفاظ میں :
“اندر کمرے میں فرش پر مصلی ‘ بچھا ہوا تھا۔ قائد اعظم گریہ وزاری میں مصروف تھے ۔زیادہ فاصلے کی وجہ سے انکے الفاظ زیادہ صاف سنائ نہ دیتے تھے لیکن اندازہ ہوتا تھا کہ ان پر رقت طاری ہے اور اللہ تعالی’ کے حضور مسلمانوں کی فلاح بہبود اور حصول آزادی کے لئے دعا و التجا کر رہے ہیں “
(بحوالہ قائد اعظم سیکولر نہیں تھے)
قائد اعظم کی ذاتی زندگی انکے اپنے مقصد کی جدو جہد کے سامنے ثانوی نوعیت رکھتی تھی۔جب انکا نکاح رتی بائ سے ہوا تو وہ گھر کو زیادہ وقت نہ دے پاتے تھے اور انکی اہلیہ اور بچی انکی توجہ اور وقت کے طلبگار ہی رہتے تھے ۔29 سال کی عمر میں رتی بائ اپنی بچی کی امانت آپ کو سونپ کر داغ مفارقت دے گئیں۔اب اس بیٹی کی پرورش تنہا قائد نے کرنی تھی۔ایک باپ جس کے کاندھے پر برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی دلانے کا بھاری فریضہ تھا اس نے اس بچی کو کیسے پالا ہوگا ،ہر درد مند صاحب اولاد محسوس کر سکتا ہے ۔۔لیکن جب یہ بیٹی بڑی ہوگئ اور اس نے ایک پارسی نوجوان سے شادی کا فیصلہ کیا تو قائد اپنی اس اکلوتی اولاد سے ناراض ہوگئےاور بیٹی کی شادی میں شامل نہ ہوۓ۔حتی’ کہ دینا جناح جب اپنے باپ کو سالگرہ کا کارڈ بھیجتیں تو آپ یوں جواب بھیجتے “مسز واڈیا آپکا شکریہ “۔(بحوالہ میرا قائد ummat.net)
اگر اس وقت قائد اعظم بیٹی کی ضد کے آگے ہار مان لیتے تو وہ دنیا بھر سے اس دو قومی نظریے کی خاطر لڑنے کے قابل کیسے ہوتے ؟
مادر ملت فاطمہ جناح نے اپنی کتاب “میرا بھائ “میں ایک خاص واقعہ لکھا ہے کہ زندگی کے آخری ایام میں جب انکی حالت بہت خراب تھی تو میں نے انہیں مکمل آرام کا مشورہ دیا ۔جس پر انھوں نے کہا کہ فاطی! کیا تم نے کسی جرنیل کو اس وقت رخصت پر جاتے ہوۓ دیکھا ہے جب اسکی فوج میدان جنگ میں اپنی بقا کے لئے برسر پیکار ہو ؟
اس پر میں کہتی کہ آپ کی زندگی بہت عزیز ہے! تو وہ جواب دیتے :”مجھے ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی زندگی کی فکر ہے “۔
یعنی جن مسلمانوں نے بے پناہ قربانیوں کے بعد پاکستان کو پالیا تھا وہ تو منزل تک پہنچ گئے لیکن (کشمیر و ہند میں) جو پیچھے رہ گئے، قائد اعظم کو انکی زندگی کی بہت فکر تھی۔
آج کا دن یہ تقاضا کرتا ہے کہ من حیث القوم ہم رک کر اپنے ماضی وحال کو قائد اعظم محمد علی جناح کے آئینہء کردار میں پرکھیں اور اسے درست کرنے کا عزم کریں ۔
تو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے
ایسی بدلی کوچے کی فضا تیرے بعد
اور تو کیا کسی پیماں کی حفاظت ہوتی؟
ہم سے اک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد !!