انٹرویو حکیم شاکر فاروقی 124

قاتل کون؟/قصص القرآن 1/ ازقلم:حکیم شاکر فاروقی

(قصص القرآن، قسط نمبر1)قاتل کون؟؟؟
حکایات و قصص وہ آئینہ ہیں جن میں ماضی کی تصویر دیکھ کر مستقبل کو سنوارا جا سکتا ہے۔ یہ انسانی طبیعت کو تفریح پہنچانے کے ساتھ ساتھ سبق آموزبھی ہوتے ہیں۔ اسی لیے قرآن مجید میں پچیس انبیاء کرام اور عام لوگوں کے سو کے قریب قصے بیان کیے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ حکایات بنی اسرائیل کی بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک ’’گائے والوں‘‘ کا تذکرہ بھی ہے۔ اسی کی نسبت سے پوری سورت کا نام ’’بقرہ‘‘ رکھا گیا ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں’’حیصہ‘‘ شہر کا مکین ’’عامیل‘‘ نامی آدمی قتل ہو گیا۔ قتل اتنی مہارت سے کیا گیا کہ قاتل کا نشان تک نہ مل سکا۔ لاش پڑوس میں واقع خربہ نامی شہر کے قریب سے ملی۔ اُس دور میں جس شہر کے قریب سے لاش ملتی، اسی کے مکین قاتل ٹھہرتے۔ جبکہ یہاں کے لوگ اس وقوعہ قطعاً لاعلم تھے۔ قریب تھا کہ دونوں قصبوں کے لوگ ایک دوسرے سے الجھ پڑتے۔ معاملہ پیغمبر وقت سیدنا موسی علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچ گیا۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالی سے دعا کی تو جواب ملا کہ ’’ان سے کہیں ایک عدد گائے ذبح کریں۔‘‘
بنی اسرائیل کام چور اور انتہائی ڈھیٹ تھے۔ فورا موسی علیہ السلام پر الزام دھر دیا کہ وہ مذاق کر رہے ہیں۔ پھر جب انہیں یقین ہو گیا کہ موسی علیہ السلام اس معاملہ میں سنجیدہ ہیں تو بہانہ سازی کرنے لگے۔
پہلے کہا ’’ہمیں اس گائے کی عمر بتائیں۔‘‘
اللہ تعالی نے بتا دی کہ’’نہ تو وہ بچی ہو نہ ہی بوڑھی۔‘‘
پھر کہنے لگے ’’اس کا رنگ کیسا ہو؟‘‘
اللہ تعالی نے فرمایا ’’سنہری مائل ہو کہ دیکھنے والوں کو بھلی معلوم ہو۔‘‘
پھر کہا ’’اس کی حالت کیسی ہو؟‘‘
اللہ تعالی نے فرمایا ’’وہ ہل کے لیے جوتی گئی ہو، نہ ہی اس نے کبھی وزن اٹھایا ہو۔‘‘
گائے کی تلاش جاری ہو گئی۔ بڑی مشکل سے جنگل کے ایک یتیم بچے سے ان صفات کی حامل گائے ملی۔ اس کی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ سن کر ہوش اڑ گئے۔ بالآخر گائے کی کھال بھر سونا دے کر اسے خرید لیا گیا۔ پھر اسے ذبح کر کے اس کا گوشت یا دم کی ہڈی مقتول کے کندھوں کے درمیان لگائی گئی تو مقتول زندہ ہو گیا، قاتل کا نام بتایا اور دوبارہ مر گیا۔
مفسرین کے نزدیک یہ قاتل، مقتول کا سگا چچا زاد بھائی تھا جو اس کی بیٹی سے شادی کر کے ساری وراثت ہڑپ کرنا چاہتا تھا۔ (انوار البیان) شاید یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ گائے ذبح ہی نہیں کرنا چاہتے تھے اور حیل و حجت سے کام لے کر اسے مؤخر کرنا چاہتے تھے۔
اس واقعہ بارے مفسرین نے عجیب و غریب حکمتیں اور بصائر و عبر ذکر کیے ہیں مثلا:
٭… بار بار سوال کرنے کی بجائے کوئی سی گائے بھی ذبح کر دی جاتی تو مقصد حل ہو جاتا، لیکن بنی اسرائیل کی روایتی ہٹ دھرمی اور بے جا مطالبات نے معاملہ الجھا دیا۔ چنانچہ احکام خداوندی میںغیرضروری سوالات سے بچنا ضروری ہوتا ہے۔
٭… بنی اسرائیل نے دو جرم کیے تھے ایک قتل ناحق، دوسرا احکام خداوندی میں حجتیں نکالنا، اسی لیے اللہ تعالی نے بطور سزا انہیں گائے تلاش کرنے بارے مشکل میں ڈال دیا۔
٭…بنی اسرائیل کا ایک گروہ حیات بعد الممات (موت کے بعد زندگی) کا قائل نہیں تھا، اللہ تعالی نے اس واقعہ کے ذریعے انہیں متنبہ فرما دیا۔
٭…ہندوؤں کی طرح یہود کے دل میں بھی گائے کی عظمت بیٹھ گئی تھی۔(جیسا کہ بائبل، باب گنتی: 19.2اور استثناء 1:3, 4:2 سے بھی ثابت ہے) اس کی گردن کاٹنے کا حکم دے کر اللہ تعالی نے اس قبیح عقیدے کا جڑ سے خاتمہ فرما دیا۔
٭… امام شہرستانیؒ کے بقول اس واقعے سے موسیؑ کا معجزہ دکھلانا مقصد تھا، ورنہ بذریعہ وحی ہی قاتل کا نام بتایا جا سکتا تھا۔
٭… حیل و حجت کرتے ہوئے وہ اِنَّآ اِنْ شَآءَ اللہُ لَمُھْتَدُوْنَ کہہ بیٹھے، یعنی ’’اگر اللہ نے چاہا تو ہم تلاش کر لیں گے۔‘‘ اللہ تعالی کو یہ ’’ان شاء اللہ‘‘ کہنا پسند آ گیا، جس کی وجہ سے مزید پابندیاں نہیں لگائیں۔’’درمنثور‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر وہ یہ الفاظ نہ کہتے تو ساری زندگی ایسی گائے تلاش نہ کر سکتے۔
٭… بنی اسرائیل اُس پیغمبر کی اولاد تھے جس نے محض ایک خواب کی بنا پر اپنا سگا بیٹا ذبح کرنے کی ٹھان لی تھی، ایسی اولاد سے قطعا امید نہیں تھی کہ حکم الہی بجا لانے میں پس و پیش کرتے۔
٭…تفسیر مظہری نے ان آیات مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے لکھا کہ مقتول، قاتل کا وارث نہیں بن سکتا۔
٭… وَاللہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ سے مفسرین نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی سات پردوں میں چھپ کر بھی کام کرے گا تو اللہ تعالی اسے ضرور ظاہر فرما دیتے ہیںخواہ وہ نیکی کا کام ہو یا برائی کا۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہر کام خالص اللہ تعالی کی رضا کے لیے کیا جائے اور اسے سرانجام دینے میں ہرگز سستی نہ برتی جائے ورنہ آہستہ آہستہ دل پتھر کا ہوتا جائے گا جو دعاؤں اور نیکیوں کی تپش سے بھی نہیں پگھلے گا۔
٭…٭…٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں