734

قصیدہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی اقسام ، آغاز ، ارتقاء اور اجزاء۔تجزیہ و تفکر /تحریر/ پروفیسر مُحمَّد صدیق بزمی ، قصور ، پنجاب ، پاکستان

**قصیدہ :*

قصیدہ عربی زبان کے لفظ قصد سے نِکلا ہے جس کے معنی توجہ یا ارادہ کے ہیں . مقصد وہ چیز ہوتی ہے جس کا ارادہ کیا جائے یا جس کی طرف توجہ کی جائے. بعض محققین کا خیال ہے کہ لفظ قصیدہ قصد سے نِکلا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ شاعر ارادہ کرکے کسی کی مدح یا ہجو یعنی بُرائی کرتا ہے. بعض نے اس کے معنی “مغزِ غلیظ” کے بیان کیے ہیں. 

گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہارِ خیال کرنے کا قصد کرتا ہے ، اس کے دوسرے معانی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصنافِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاء میں مغز کو حاصل ہوتی ہے. فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں. 

*تعریف :*

شاعری کی ایک خاص قِسم کو قصیدہ کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی بادشاہ یا امیر کبیر کی مدح کی جاتی ہے اور اس مدح کے صلے کے طور پر انعام و اکرام حاصل کرنے کا ارادہ کیا جاتا ہے. اس مناسبت سے شاعری کی اس صنف کو قصیدہ کہتے ہیں. قصیدہ اُس نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی مدح یعنی تعریف کی جائے یا کسی کی ہجو یعنی بُرائی کی جائے.

*قصیدے کی بنیادی اقسام*

 قصیدے کی دو بنیادی اقسام ہیں:

 ١- خطابیہ قصیدہ  ٢- تمہیدیہ قصیدہ

 *خطابیہ قصیدہ:*

 قصیدے کی ایسی قِسم جس میں شاعر تمہید باندھے بغیر مدعا بیان کر دے ، مطلب یہ کہ اگر قصیدہ مدحیہ ہے تو شاعر ممدوح کو خطاب کرے اور اُس کے اُوصاف کو بیان کرنا شروع کر دے. ہجویہ ہے تو براہِ راست اُس کی مذمت کرنے لگ پڑے. اصل مدعا وعظ وہ نصیحت ہے تو بلا کسی تمہید کے آغاز ہو جائے

 *تمہیدیہ قصیدہ:*

قصیدے کی ایسی قِسم جس میں اصل مدعا سے پہلے تمہید باندھی جائے پھر مدعا بیان کیا جائے. یہ تمہید تشبیب یا نسیب کہلاتی ہے اور بہار و خزاں جس میں عشق اور پند و نصیحت کے مضامین پر مشتمل ہو سکتی ہے ، اسی کی رعایت سے قصیدے کو بہاریہ ، عشقیہ اور واعظیہ کہا جا سکتا ہے

*قصیدے کا آغاز و ارتقاء :*

قصیدے نے سر زمینِ عرب میں جنم لیا اور وہاں بے حد مقبول ہُوا لیکن قدیم شعرائے عرب نے قصیدہ گوئی کو جھوٹی خوشامد اور کار بر آری یعنی اپنا کام نِکالنے اور انعام پانے کے لیے استعمال نہیں کیا. عرب شعرا قصیدے میں اپنے قبیلے ، اپنے گاؤں ، کسی بزرگ یا اپنے محبوب کی تعریف بغیر کسی غرض کے صدقِ دِل سے کرتے ہیں. اُس وقت قصیدے میں جھوٹ اور مبالغے کا بھی گزر نہ تھا. اس لیے قصیدہ نگار جو کچھ لکھتا تھا ، سُننے اور پڑھنے والے اُس پر یقین کرتے تھے لیکن آگے چل کر یہ صورت نہ رہی اور شاعر اپنے حصولِ مطلب کے لیے استعمال کرنے لگے. عرب سے یہ صنف ایران پہنچی ، وہاں کی مخصوص تہذیب نے اسے متاثر کیا. نتیجہ یہ نِکلا کہ قصیدے میں تصنع ، بناؤٹ ، مبالغہ آرائی اور جھوٹ کا دور دورہ ہو گیا. فارسی کے بلند پایہ شاعروں نے قصیدے کی طرف توجہ کی اور اسے بہت فروغ دیا لیکن قصیدہ اب مصلحت کا شکار ہو چکا تھا اور اسے کام نِکالنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا تھا.

اُردُو میں قصیدہ نگاری کی شروعات دکن سے ہوئی ، سُلطان مُحمَّد قُلی قُطب شاہ نے ١٦١١ء کے قریب قصیدے لکھے. اُن قصائد کی زبان کو دکنی اُردُو کہنا بجا ہے کیوں کہ دکنی الفاظ کی کثرت ہے. دکن کے قصیدہ گو شعرا میں نصرتی کا نام بھی اہم ہے ، اس کے بعد شمالی ہند میں مرزا مُحمَّد رفیع سودا نے قصیدہ گوئی میں بڑا نام ادا کیا ، اس صنف سے اُن کی طبیعت کو خاص مناسبت تھی. اُنھوں نے مدحیہ ، ہجو قصائد بھی لکھے اور شہرِ آشوب بھی کہے. قصیدہ نگاری کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں مثلاً زور و بیان ، شوکت الفاظ مضمون نیز پُر کششت دِلچسپ گریز ، پُر جوش اور مبالغہ آمیز مدح وہ سب مرزا مُحمَّد رفیع سودا کے قصیدوں میں موجود ہے. لکھنؤ میں مصحفی و انشاء نے بھی بہت سے قصیدے لکھے لیکن عہدِ سودا کے بعد قصیدہ نگاری کا دوسرا اہم نام مومن ، ذوق اور مرزا اسد اللہ خاں غالب کا ہے. مومن کسی دربار سے وابستہ نہ تھے ، نہ انعام و اکرام کے طلب گار تھے لیکن اظہارِ تشکر کے طور پر اُنھوں نے بھی قصیدے کہے. 

مرزا اسد اللہ خاں غالب نے کئی قصیدے لکھے اور اس میدان میں بھی اپنا راستہ سب سے الگ نِکالا. قصیدہ نگاری میں اُن کی توجہ مدح سے زیادہ تشبیب پر رہتی ہے. غالب کے قصیدے اپنا انفرادی رنگ رکھتے ہیں لیکن اس عہد کے سب سے اہم قصیدہ گو شیخ ابراہیم ذوق ہیں. اُن کے قصیدے گہرا علمی رنگ لیے ہوئے ہیں اور اُن میں اصطلاحات کا کثرت سے استعمال ہُوا ہے …

منیر شکوہ آبادی ، امیر مینائی اور جلال لکھنؤی  لکھنؤ اسکول سے تعلق رکھتے ہیں. قصیدہ گوئی میں انہیں اعلیٰ مقام حاصل ہے ، نعتیہ قصیدہ گوئی میں مُحسن کاکوری نے قابلِ رشک مقام حاصل کیا. قصیدے اس کے بعد بھی کہے گئے لیکن پھر کوئی ایسا قصیدہ نگار پیدا نہیں ہُوا جس کا نام قابلِ ذکر ہو ….

قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے ، بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے. پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں مگر قصیدے میں ردیف لازمی نہیں ہے. قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے. بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں. ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ ہے اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں. اُردُو اور فارسی میں کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں. غزل کی طرح قصیدے میں بھی مقطع ہوتا ہے لیکن قصیدے میں کچھ چیزیں غزل سے مختلف ہوتی ہیں مثلاً درمیان میں کئی مطلعے ہو سکتے ہیں اور مقطع ضروری نہیں کہ قصیدے کا آخری شعر ہو. 

*قصیدے کے اجزائے ترکیبی یا حصے:*

نہ صرف اُردُو بل کہ عربی اور فارسی میں بھی تمہیدیہ قصائد کا رواج رہا ہے یعنی قصیدہ نگار مدح یا ہجو کرنے سے پہلے تمہید باندھتا ہے پھر اصل موضوع پر آتا ہے. تمہیدیہ قصیدے کے عموماً پانچ اجزاء ہوتے ہیں اور ان پانچوں اجزاء کی وضاحت نیچے بیان کی گئی ہے:

*١- تشبیب   ٢- گریز   ٣- مدح   ٤- حُسنِ طلب   ٥- دُعائیہ*

*١- پہلا حصہ ……تشبیب :*

قصیدے کے شروع میں فطرت کے مناظر ، عشق و محبت کے معاملات اور عیش و نشاط کی محافل کا ذکر کیا جاتا ہے. قصیدے کا یہ حصہ بہت ہلکی پُھلکی ، تر و تازہ اور فرحت بخش قِسم کی شاعری پر مشتمل ہوتا ہے. اس حصے کو تشبیب ، نسیب یا تغزل کہتے ہیں.

*٢- دوسرا حصہ …..گریز :*

تشبیب یا نسیب محض ایک ابتدائیہ ہوتا ہے اور اصل موضوع سے غیر متعلق ہوتا ہے. اسی دوسرے حصے میں شاعر پہلے غیر متعلق حصے سے بڑے تعجب انگیز انداز میں اصل موضوع کی طرف رجوع کرتا ہے. موضوع کی تبدیلی کا یہ عمل جتنا غیر محسوس طریقے سے ہو ، اتنا ہی زیادہ متاثر کُن ہوتا ہے. قصیدے کے اس دوسرے حصے کو گریز یا مخلص کہتے ہیں کیوں کہ شاعر اس حصے میں تغزل سے گریز کرتے ہوئے مدح کی طرف رجوع کرتا ہے.

*٣- تیسرا حصہ ….. مدح :*

یہ قصیدے کا بنیادی حصہ ہے. اس میں کسی بادشاہ ، کسی شہزادے ، وزیر یا امیر کی توصیف و ستائش کی جاتی ہے. مبالغہ آمیز انداز میں اُس کی قابلیت ، شجاعت اور سخاوت کی مدح کی جاتی ہے. اس حصے میں ممدوح کے دربار ، اُس کے شکار اور اُس کی جنگی فتوحات اور جنگی کامیابیوں کا بھی ذکر ہوتا ہے. قصیدے کے اس حصے کو مدح کا نام دیا گیا ہے اور قصیدے کا یہی مرکزی حصہ ہوتا ہے.

*٤- چوتھا حصہ ….. حُسنِ طلب :*

مدح کے بعد شاعر اپنی بدحالی کا ذکر کرتا ہے اور انعام و اکرام کا تقاضا کرتا ہے مثلاً وہ کہتا ہے کہ میں بڑی دُور سے آیا ہُوں اور ایک سخی کے دربار میں آیا ہُوں.

*٥- پانچواں حصہ ….. دُعائیہ :*

یہ قصیدے کا اختتامی حصہ ہوتا ہے. اس میں شاعر اپنے ممدوح کے لیے دُعائیں کرتا ہے مثلاً وہ کہتا ہے کہ میرے ممدوح کی زندگی طویل ہو. اُس کی مہربانیوں کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رہے. بادشاہ عرصہ دراز تک حکومت کرے اور صحت و سلامتی کے ساتھ زندگی گزارے. قصیدے کے اس آخری حصے کو “دُعا” کہتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں