تیزی سے بدلتے موسم اور موسمی حالات جہاں کرہ ارض کو خطرے کی لکیر کی جانب دھکیل رہے ہیں وہیں آئے روز نت نئی بیماریوں کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ اربوں نوری سال پر پھیلی اس کائنات میں اب تک انسانی معلومات کے مطابق زمین ہی ایک ایسا کرہ ہے جہاں زندگی کا وجود ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ اور محرک موسمی اعتدال ہی ہے، جہاں ایک خاص تناسب سے گیسیں اور ضروریات زندگی موجود ہیں۔ اس موسمی اعتدال کے قیام میں بھی لاکھوں سال لگے ہیں، منجمد برفانی دور کے بعد آہستہ آہستہ یہ کرہ انسانی زندگی کے لیے سازگار ہوا اور انسان یہاں آباد ہو سکا۔ لیکن پچھلی نصف صدی سے جس تیزی کے ساتھ دنیا نے ٹیکنالوجی میں ترقی حاصل کی ہے وہ اپنے ساتھ نئے مسائل بھی لائی ہے۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ موسمی تغیرات ہیں۔ زمین کا درجہ حرارت ایندھن کے کثرت استعمال سے دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے، آج ایشائی ممالک کو بالخصوص اس مسئلے کا سامنا ہے۔ اگر ہم پچھلی دو دہائیوں پر غور کریں تو ہمیں موسم نسبتاً گرم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان میں اپریل کے اختتام پر ہی سخت گرمی ڈیرے ڈال لیتی ہے، جو آگے بہ تدریج بڑھتے بڑھتے خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے، اگر غور کیا جائے تو غیر محسوس طور پر موسم بہار ختم ہوتا جا رہا ہے، اب سردی کے فوراً بعد گرمی آتی ہے، اور موسم گرما کا دورانیہ کسی بھی موسم کی بہ نسبت سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس تیزی سے بدلتی صورت حال کا مظہر صرف پاکستان ہی نہیں، بل کہ براعظم ایشیا کے دیگر ممالک بھی ہیں۔ ایشیا چوں کہ اوائل سے ہی گرم خطہ رہا ہے اس لیے یہاں اس کا مظہر زیادہ قوی ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو دیگر براعظم بھی اس موسمی تبدیلی کے عفریت سے مامون نہیں، چند سال قبل ایمازون جیسے جنگلات میں لگنے والی آگ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ گرمی نے اب آہستہ آہستہ یورپی، اور امریکی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے، قطب شمالی۔اور قطب جنوبی میں بھی برف پگھلنے لگی ہے، جس سے سمندروں کی سطح بڑھ رہی ہے، جو ساحلی آبادی والے شہروں کے لیے شدید خطرے کی علامت ہے۔ گرمی کی شدت سے بخاراتی عمل بھی تیز ہوگیا ہے، جس سے بارشیں معمول سے زیادہ برستی ہیں، جو عارضی ٹھنڈک تو فراہم کرتی ہیں لیکن اس کے بعد سیلاب، دریاؤں اور سمندروں میں طغیانی اور زمین کے حبس میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال کئی ممالک میں بارشوں کی وجہ سے سیلابی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ زمین کی بڑھتی تپش کی وجہ سے محرکاتی پلیٹیں بھی معمول سے زیادہ حرکت کرتی ہیں جن کے باعث ان پلیٹوں پر واقع زمینی خطے آئے روز زلزلے کی زد میں رہتے ہیں، الغرض کوئی ایسا انسانی حیات کا پہلو نہیں جو اس موسمی تغیرات کی زد میں ناں آتا ہو۔ عندیہ دیا جا رہا ہے کہ شدید گرمی، اور خشک سالی کی بنا پر زیر زمین پانی بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے، اور اگلے 30 سالوں میں بہت سے میدانی خطے زمینی پانی سے محروم ہو جائیں گے، اور بہت سے ساحلی خطے زیر آب چلے جائیں گے۔ اگر اسباب کی بات کی جائے تو بلاشبہ اس میں تردد نہیں کہ اس کرے کو اتنے نازک موڑ پر لانے والے ہم انسان خود ہیں، قدرت کے مظاہر میں مداخلت کرنے کا جرم اتنا بڑا ہے کہ ہم سے قدرت زندگی کے لوازمات ہی چھینتی جا رہی ہے۔ ہم انسانوں نے تیزی سے صنعتی انقلاب کے نام پر اوزون کی تہہ کو جا بہ جا نقصان پہنچایا ہے، اور رہی سہی کسر مصنوعی سیارچوں (سیٹلائٹ) کے ملبے نے پوری کر دی ہے۔ جو اوزون کی تہہ کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی موسمی تغیرات کا سب سے بڑا سبب معلوم ہوتی ہیں، ہم نے ہری بھری زمین کو اپنے گھروں کی زینت بننے والے فرنیچر اور دیگر سامانِ زندگی کے لیے کاٹ کاٹ کر اپنی زندگی ہی داؤ پر لگا دی۔ درخت لگانے کا رجحان ختم ہوگیا، مصنوعی زراعت کا دور دورہ ہے، گرین فارمز تشکیل دیے جا رہے ہیں، جو قدرتی ماحول میں نشو نما ناں پانے کی بنا پر قدرتی افادات بھی نہیں دے پاتے۔ فضلے کا مناسب انتظام ناں ہونے کی بنا پر آبی آلودگی بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ نت نئے جنگی آلات و ہتھیاروں کا استعمال بھی زمینی ماحول کے لیے خطرے کا عندیہ ثابت ہو رہا ہے۔ الغرض موسمی تغیرات کے تمام ہی عوامل انسان کے پیدا کردہ ہیں، ان تمام ہی عوامل سے متعلق رہ نمائی اسلام میں موجود ہے۔ آج پوری دنیا میں 5 جون یومِ ماحولیات کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن موسمی تغیرات سے نبرد آزما ہونے کا نعرہ تو بڑا خوب صورت ہے، لیکن اس سے بڑھ کر عملی اقدام کی ضرورت ہے، کانفرنسوں، سیمیناروں اور رسمی بیانات سے آگے بڑھ کر ان اسباب کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو عملی طور پر موسم کو اعتدال کی جانب واپس لے کر جائیں۔ اقوام متحدہ نے 2015 میں ایک قرارداد میں دنیا کی ترقی کے پائیدار اہداف کا تعین کیا ہے۔ 17 اہداف میں سے 9 موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق ہیں، اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت عالمی طور پر جو سب سے بڑا چیلنج عالم انسانیت کو درپیش ہے وہ یہی ہے، اس سے نکلنے کے راستے ہیں، لیکن ظاہر ہے وہ محنت طلب ہیں۔ مظاہر کو بگاڑنا آسان ہوتا ہے اور سنوارنا مشکل، آج کی اس سب سے بڑی مشکل کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں اس کرے کو بچانے کے لیے کمر بستہ ہونا ہوگا۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم محنت سے بھاگیں یا زندگی سے۔ ہم تو شاید اس دنیا سے چلے جائیں، لیکن اگر بروقت اقدامات ناں کیے تو عین ممکن ہے ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک تباہ شدہ کرہ چھوڑ کر جائیں، اس طرز عمل سے جہاں ہم تاریخ میں مجرم قرار پائیں گے وہیں انسانیت کی معدومیت کے سرغنہ بھی۔ آج مریخ پر جانے کی باتیں ہو رہی ہیں، دنیا کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ان پراجیکٹس میں جھونکا جا رہا ہے، لیکن افسوس کہ اسی زمین کو سنوارنے کی سعی اس سے کہیں کم ہے۔ 5 جون ماحولیات کا عالمی دن ہے، اس دن حسب استطاعت موسمی اعتدال کی جانب اپنا قدم ضرور بڑھائیں۔ عملی اقدامات میں ہم میں سے ہر شخص ایک پودا ضرور لگا سکتا ہے، اس کی نشو نما تک اس کا خیال ضرور رکھ سکتا ہے، یقیناً یہ ہم سب کے بس میں ہے، نیز یہ اسلامی تعلیمات کا کا حصہ بھی ہے۔ اگر پھر بھی کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ وہ اس عملی قدم سے بھی عاجز ہے تو اسے چاہیے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی اس نزاکت کی آگہی اپنے احباب و متعلقین میں ضرور پیش کرے۔ پیش آمدہ مسائل باور کروائے اور انہیں ذہنی، جسمانی اور قلبی طور پر اس زمین کی بقا کے لیے تیار کرے۔ یہ بھی ماحولیات کے عالمی دن کا کم سے کم حق ہے، لیکن ہر حال میں اپنے حصے کی شمع جلانا ہمارا اخلاقی فرض ہے، آج اس اخلاقی فرض کو ادا ناں کیا تو کل تاریخ کے اوراق آنے والی نسلیں ہمیں اخلاقی مجرم ضرور قرار دیں گی۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل