71

مردوں کےعالمی دن کے موقع پر/مرد نامہ/تحریر/محمد شاہد فاروق، پھلور

تحریر/محمد شاہد فاروق (پھلور)

مردوں کی عام طور پر دو اقسام ہوتی ہیں ۔ غیر شادی شدہ اور مظلوم ۔ مردوں کی مظلوم قسم کو عرف عام میں شادی شدہ کہا جاتا ہے ۔ شادی شدہ مرد اور فٹ بال میں کافی مماثلت الی جاتی ہے ۔ ہر دو میں سے کوئی بھی ہو، بیگانوں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی ٹھوکر میں مارنا ن صرف اپنا فرض سمجھتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے چھینٹے کے لیے آپس میں دست و گر یہاں بھی ہو جاتے ہیں۔

شادی کے بعد عام طور پر مرد مسئلہ کشمیر کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے اور دو مختلف طاقتیں اس پر اپنی ملکیت کی دعوے دار بن جاتی ہیں اور پھر دونوں طرف سے ” شہ رگ” اور ”اٹوٹ انگ” کے نعروں کی گونج میں جھڑپوں اور کھینچا تانی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ای کول چوں کہ یہ معاملہ دونوں طاقتوں کی بقا کا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے مطالبے سے دست بردار نہیں ہوتیں۔ ان حالات میں مرد بے چارا اپنے آپ سے دست بردار ہو جاتا ہے اور خود کوان دونوں طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔

شادی کے بعد مردکو شوہر نام دار کا درجہ حاصل ہو جا تا ہے، مگر حالات اسے نام دار وغیرہ سے نامراد بنا دیتے ہیں ۔ شوہر کو شوہر نام دار اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا اپنا کوئی مدارنہیں چوں ہوتا ۔ وہ عام طور پر بیوی کے مدار میں گھومتا ہے تا ہم کبھی کبھی ماں کی محبت غالب آ جانے پر ماں کے مدرسہ میں بھی داخل ہو جاتا ہے ، مگر جب بیوی کی کشش، کشش ثقل کی طرح اسے اپنی طرف کھینچتی ہے، تو وہ سب مدار چھوڑ کر دم دار ستارے کی مانند بیوی کے مدار میں داخل ہو جاتا ہے۔

مشاہدات سے ثابت ہوا ہے کہ بیوی اور ٹی وی (TV) میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ دونوں سے بیک وقت خبریں، شکایتی پروگرام اور فرمائشی پروگرام سنے جاسکتے ہیں ۔ ٹی وی اور بیوی کے ڈرامے بھی اپنی مثال آپ ہوتے ہیں ۔البتہ دونوں میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے ۔ ٹی وی کو آپ اپنی مرضی سے بند کر سکتے ہیں ، مگر بیوی کے معاملے میں آپ کو یہ سہولت میسر نہیں ہوتی ۔

انگریزی میں بیوی کو Wife کہا جاتا ہے ، اگر غور کیا جائے ، تو Wife اور Wi-Fi میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا ۔ مرد حضرات دونوں کے سگنلز یعنی اشاروں کے محتاج نظر آتے ہیں ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ بیویاں تو اپنے شوہر کو انگلی کے اشاروں پر نچاتی ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ کچھ بیویوں کی آنکھیں شوہروں کو ریموٹ کی طرح کنٹرول کرتی ہیں ۔ شوہر حضرات کا موازنہ سیاروں سے بھی کیا جا سکتا ہے ، جس طرح سیارے کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کی روشنی سے چمکتا ہے ۔ اسی طرح شوہر بے چارے کی بھی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی بلکہ بیوی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے ۔ مشاہدے کی بات ہے کہ اچھے بھلے معزز قسم کے شوہر حضرات بھی بیوی کے آگے ایسے چلتے ہیں، جیسے کسان کے آگے سدھائے ہوئے بیل چلتے ہیں ۔

شوہر حضرات کے حوالے سے ” میراثی لیکس” میں تھانے دار ، وکیل حضرات اور نمبر دار وغیرہ کے آف شور بے عزتی کے واقعات سامنے آئے ہیں ۔ البتہ مولوی حضرات کے ہاں چوں کہ پردے کا خاص اہتمام ہوتا ہے ، اس لیے پانامہ لیکس کی طرح میراثی لیکس میں بھی ان کا نام نہیں ملتا ۔ آف شور بے عزتی کے حوالے سے جب دوست احباب سے رائے طلب کی گئی ، تو سب کی طرف سے ایک ہی موقف سامنے آیا کہ ہم میثاق زوجیت پرعمل کرتے ہیں ۔ نجی محفلوں میں چند مولوی حضرات بھی میثاق زوجیت کے گن گاتے نظر آتے ہیں ۔ کچھ حضرات بیوی کو پیر کا درجہ دے دیتے ہیں ۔اس نسبت سے انھیں ”زن مرید” کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے بعض حضرات اپنی محنت سے اس میدان میں خلافت کا عہدہ بھی حاصل کر لیتے ہیں ، لیکن یہ حضرات اس حوالے سے خود کو معاشرے میں ظاہر نہیں کرتے ، اس لیے ایسے خلفا کا شہر میں ملنا اور شمار کرنا مشکل ہے۔

سنی سنائی بات ہے کہ کچھ شوہر بیویوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے تھے، مگر تمام تر مشاہدات کے باوجود یہ بات ثابت نہیں ہو سکی ۔ اس سلسلے میں ہڑپہ اور ٹیکسلا کے تحقیقی دورے بھی بے کار ثابت ہوئے ہیں ۔ ان عجائب گھروں سے بھی ایسے کوئی شواہد نہیں مل سکے، جن سے یہ ثابت ہو کہ اس دور کے مرد موجودہ دور کے مردوں سے بہادر ہوتے تھے اور اپنی بیویوں کے آگے سر اٹھا کر بات کر سکتے تھے ۔ اس بات پر سب متفق ہیں کہ شادی کے بعد مرد کی آزادی سلب ہو کر رہ جاتی ہے۔ آزادی نسواں کا شور مچانے والے اداروں اور این جی اوز کو آزادی شوہراں کے لیے بھی آواز بلند کرنی چاہیے تا کہ شوہر حضرات کا مزید استحصال نہ ہو ۔ اس مضمون کو نامکمل سمجھنے والے شوہر حضرات اپنے اپنے مشاہدات اور تجربات کو چودہ نکات کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں