86

مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دینے والا ادیب/تحریر/محمد اسامہ قاسم

مسکراتے الفاظ کا خالق و قلم کار پطرس بخاری

الفاظ کو مسکراہٹ اور پڑھنے والے کو خوشی و مسرت دینے والے ، اپنی ذات اور اپنے احباب کو ہر دم ہشاش بشاش اور ہنس مکھ رکھنے والے ، خاموشیوں اور سرگوشیوں کو ایک قہقے میں ختم کر دینے والے شعوری اور تصوراتی ماحول کے باکمال قلم کار پطرس بخاری کی باتیں پڑھنے اور لکھنے کو من چاہ رہا ہے ۔
آج سے تیرہ سال قبل جب ہم میٹرک میں تھے اردو کے نصاب میں پطرس بخاری کی ایک تحریر ” سویرے جو کل میری آنکھ کھلی” پڑھی ، ہمارے اردو کے ٹیچر نے پطرس صاحب کے بارے میں بھی بہت کچھ بتایا کہ اُردو مزاح نگاری میں ان کا کوئی ثانی نہیں ، ان کے پاس پطرس کے مضامین کی کتاب تھی جو ہماری پوری کلاس نے کھینچ تان کر پڑھی ۔
بعد میں ان کی دیگر کتب کلیات پطرس اور ان کے تنقیدی مضامین اردو بازار لاہور سے خریدے اور کئی بار پڑھنے کا موقع ملا ، آج ایک بار پھر انہی کی ورق گردانی کرتے ہوئے قارئین کے ساتھ ان کا انداز تحریر ، رعایت لفظی ، موازنہ ، صورت واقعہ اور کرداروں کے تذکرے قلم بند کرتا ہوں ۔

پطرس بخاری نے اردو ادب کو انشائیوں کے ساتھ کئی خوب صورت تحریریں، تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم بھی دیے، لیکن ان کی وجہِ شہرت مزاح نگاری ہے۔
پطرس ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ فقط انہی اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت اور صدا کاری کے ساتھ انھیں ماہر براڈ کاسٹر بھی کہا جاتا ہے۔
پطرس بخاری نے اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز سول اینڈ ملٹری گزٹ سے کیا۔ وہ عموماً تنقیدی مضامین لکھتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے Peter Watkins کا قلمی نام اختیار کیا تھا۔ یہ ایک لحاظ سے مشن اسکول پشاور کے ہیڈ ماسٹر سے قلبی تعلق کا اظہار تھا۔ جس کے لفظ پیٹر کے فرانسیسی تلفظ نے پیر احمد شاہ کو پطرس بنا دیا۔ اس وقت سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر M.E. Hardy تھے جو بخاری کو ایک کالم کا سولہ روپیہ معاوضہ ادا کرتے تھے جس کی قدر اس زمانے میں تین تولہ سونے سے زائد تھی۔
پطرس بخاری مشہور ماہرِ تعلیم، اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور نقاد تھے جو ایک سفارت کار کی حیثیت سے بھی سرگرم رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انگریزی زبان پر عبور نے ان کے قلم سے کئی کتابوں کے تراجم کروائے جو یہاں قارئین میں مقبول ہوئے۔
بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا میں بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے اندر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔
پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دل چسپ باتیں مشہور ہیں۔ ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں ان کی مقبول تحریریں ہیں۔
پطرس کے مضامین کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تقریباً مزاح کے تمام حربوں کو بروئے کار لا کر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان حربوں میں رعایت لفظی، موازنہ، صورت واقعہ، کردار اور پیروڈی وغیرہ شامل ہیں اور ان تمام حربوں کی مثالیں اس کتاب میں ہمیں ملتی ہیں۔ اُن کی کتاب کے بارے میں بقول ایک نقاد: اگر یہ کہہ دوں کہ ہند و پاکستان کے تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس کے مضامین کو دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں تو پطرس کے مضامین بھاری رہیں گے۔“
بقول احمد جمال پاشا: ”پطرس نے بہت کم لکھا لیکن جو کچھ لکھا ہے وہ ظرافت کے بڑے بڑے کارناموں پر بھاری ہے۔“

بقول رشید احمد صدیقی: ” ہنس ہنس کے مار ڈالنے کا گُر پطرس کو خوب آتا ہے۔“
پطرس نے مزاح نگاری کے تقریباً سبھی حربوں سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ لیکن اُن کا پسندیدہ حربہ صورت واقعہ ہے۔ ہر مضمون اس حربے سے مزئین نظرآتا ہے مزاح میں صورت واقعہ ایک مشکل حربہ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ فنکار کی ذرا سی شعوری کوشش بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے پطرس نہایت کامیاب مزاح نگار کہے جا سکتے ہیں کہ وہ کہیں بھی اپنا رشتہ قاری سے نہیں توڑتے اور ہر حربے کا استعمال خوبی اور غیر شعوری طور پر کر جاتے ہیں۔
علم وادب کی محافل اور شخصیات میں بخاری صاحب کا بڑا نام اور مرتبہ تھا
1945ء میں جے پور میں PEN (اہلِ قلم کی بین الاقوامی انجمن) کا سالانہ اجلاس ہوا جس میں بخاری صاحب نے جو اس وقت آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹرجنرل تھے ایک نہایت فکر انگیز مقالہ بعنوان “ہمارے زمانے کا اردو ادب” پیش کیا۔ اس اجلاس میں معروف انگریزی ادیب E.M. Foster، سروجنی نائیڈو، جواہر لعل نہرو، سروپلی رادھا کرشنن، صوفیا واڈیا، ملک راج آنند اور کتنے ہی مشاہیرِ علم و ادب شریک تھے۔ رشید احمد صدیقی کا بیان ہے کہ
” مقالہ پڑھا تو دھوم مچ گئی۔ اردو اور برصغیر کی دیگر زبانوں کے ادیبوں کے ایک بنیادی مسئلے کو پہلی بار نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی ادیب مادری زبان اور انگریزی زبان کے درمیان معلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ ذولسانی کشمکش ان کے فکر و نظر کو فطری رنگ میں جلوہ گر ہونے نہیں دیتی۔
قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد اور مقام ان کے ہم عصروں میں بہت بلند اور نمایاں نظر آتا ہے اور اس کا اعتراف اپنے وقت کے نام ور اہلِ قلم بھی کرتے تھے۔ معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے پطرس کی مزاح نگاری سے متعلق لکھا کہ، “ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں