دن رات ہفتوں میں،ہفتے مہینوں میں،مہینے سالوں اور سال برسوں میں اپنی اپنی سرحدیں ایسے پار کررہے ہیں جیسے ایف سولہ تھنڈر طیارے مخالف فریق کی فضائی سرحدیں چیرتے ہوئے پار کر جاتے ہیں۔جس طرح دن رات،ہفتوں،مہینوں کی تبدیلی ہورہی ہے اسی طرح میرے دیس کے حکمرانوں کی حالت بھی انہی جیسے نظر آتی ہے۔کاتب اپنی زندگی کی تئیس بہاریں دیکھ چکا ہے جس میں کئی بار وطن عزیز کے حکمرانوں کو بدلتے دیکھا۔کبھی آپنی وردی پہ ناز کرنے کی شکل میں تو کسی کو انگریزی لباس پینٹ شرٹ اور کوٹ میں ملبوس درمیان گلے کے اس وقت کا فیشن سمجھنے جانے والی “ٹائی” گلے میں لٹکا کر انگریزی زبان میں آئیں بائیں شائیں کرنے والے حکمرانوں کو بھی دیکھا “ویسے یہ ٹائی انگریزی زبان کا حصہ کہلاتی ہے اس کا رواج شاہد ہماری پیدائش سے پہلے شروع ہوا پر ہمارا اس بلا سے واسطہ سن2004ء میں گاؤں سے راولپنڈی منتقل ہونے کی صورت میں پڑا جب ہمیں ایک پرائیویٹ ادارے میں داخل کروایا گیا یقین مانئیے اس سے بندہ کو شروع دن سے ہی چڑ تھی۔میں اپنے ساتھیوں سے کہاں کرتا تھا جس طرح تم یہ رسی اپنے گلے میں فخر سے باندھتے ہو ہمارے گاؤں میں اس طرح گلے میں رسی باندھ کر جانوروں کو باندھا جاتا ہے۔ اور ہمارے حکمران اسے فخر سمجھ کر باندھتے نظر آتے ہیں۔تو کوئی سفید لباس اور اوپر کالی واسکٹ ساتھ آنکھوں پر کالا چشمہ لگانے والے کی شکل میں مختلف حکمرانوں کو دیکھا پر اپنی اس زندگی میں مسٹر آفتاب صاحب کو اپنے وطن کے حکمرانوں سے ہر چیز مثلا ڈیوٹی کی انجام دہی اور دفتری اوقات کی پاپندی کے اعتبار سے الگ تھلگ پایا۔صبح سویرے ہی جب باد نسیم کے ٹھنڈے جھونکے دل کو چھو رہے ہوتے ہیں تو جناب گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔اپنے وقت پہ کام پر جاتے ہیں اور وقت پر ہی چھٹی کرتے ہیں مجال ہے کہ ذرا سی بھی تاخیر برداشت کرجائے جائے۔ گرمی ہو یا سردی،بارش ہویا خشکی،بہار ہو کہ خزاں،دسمبر کی یخ بختہ ہوائیں ہو یا جون جولائی کی تپتی لو،گہری کالی گھٹائیں ہو یا نیلگوں آسماں انھیں بڑے حکمران کو بغیر پروٹوکول کے جس طرح ہمارے ہاں ادنی سے ادنی وزیر کو نوازا جاتا ہے کہ بغیر دفتری اوقات میں مگن پایا۔پوری زندگی موصوف نے انہیں کبھی لیٹ ہوتا نہیں دیکھا نظام الاوقات کے ایسے پابند کہ مخلوق کو ان پر رشک آجائے،بارہ گھنٹے آپنی ریاست پہ حکمرانی کرتے ہیں،اپنے مقررہ وقت پہ ابتداء اور انتہاء بھی فی نفسہ وقت پر کرتے ہیں پر ادھر ہمارے حکمران کہ جنکی جھوٹی،من گھڑت،سفارشی،اخلاقیات سے کوسوں دور سیاست جس کا نہ سر اور نہ ہی پیر،آئے روز نئے سے نئے یوٹرن،کبھی عوام سے بھرے جلسے میں ڈاکیئے کی مانند شکل اختیار کرکے “سفید چھٹی”لہرا کر اور کوئی “چاغی”کے مقام پر ہونے والے کارنامے کی رواداد سنا کر ورغلاتے نظر آتے ہیں تو کوئی صاحب مسٹر بھٹو مرحوم کے قصے سنا سنا کر جلسے کو تڑکا لگا کر آپنی راہ چل دیتے ہیں۔اب انیسویں صدی کے قصے ماضی کا حصہ بن چکے اب بیسویں صدی چل رہی ذرا بتائیے!اس صدی میں آپ نے تخت پر بیٹھ کر عوام الناس کو جلسے جلوسوں کے ذریعے لڑوانا سیکھایا یا عوام کو ضروریات زندگی سمجھنے والی چیزوں سے فائدہ بھی پہنچایا۔چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کی قیمتیں اتنی کہ بیچارہ مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والا انھیں خریدنے سے قاصر۔ہماری ان حکمرانوں سے گزارش ہے کہ برائے کرم سیاسی جلسے اور جلوسوں میں بندوقوں کے رخ ادھر ادھر کرنے کے بجائے اگر عوام کو خستہ حالات سے نکالنے کے بارے میں سوچا جائے جس طرح چچا آفتاب ہر وقت صبح طلوع وقت سے غروب ہونے تک آپنی رعایا کے بارے میں سوچتے ہیں۔۔۔

مسٹر آفتاب اور ہمارے حکمران/ازقلم/عبدالعلیم اعوان
اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں
مزید پڑھیں
”مسٹر آفتاب اور ہمارے حکمران/ازقلم/عبدالعلیم اعوان“ ایک تبصرہ
اپنا تبصرہ بھیجیں Cancel reply
آج ہی “لکھو “سے شناسائی ہوئی ۔کسی بھلے مانس نے اس کا لنک بھیجا تو ہم نے بھی سوچا کہ دیکھتے ہیں اس میں ہے کیا اور دیکھنے کے بعد افسوس ہوا کہ پہلے کیوں نہ دیکھا۔بہت ہی اچھی تحریریں،مضامین،تبصرے،خاکے۔۔غرضیکہ رنگ برنگے ادبی شہ پاروں سے سجا ایک گلدستہ۔۔بہت خوشی ہوئی۔سلامت رہیں ۔