مغرب کی ایک نفسیاتی بیماری اورہمارے سیاست دانوں کی ذہنی غلامی
مولانا ڈاکٹر محمد جہان یعقوب
مغرب جوں جوں دین ومذہب اورفطرت سے دورہوتاجارہاہے،اس کے باشندوں میں قسم قسم کی بیماریاں پیداہوتی جارہی ہیں،جن میں سے ایک بیماری یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیق اورجنس پرمطمئن نہیں،یعنی اللہ نے انھیں مردبنایاہے مگروہ عورت بنناچاہتے ہیں یااللہ نے انھیں عورت بنایاہے مگروہ مردبنناچاہتے ہیں۔یہ بیماری بھی اللہ کے عذاب کی ایک شکل ہے،کیونکہ انھوں نے اپنے معاشرے سے شرم وحیااورعفت وعصمت کاجنازہ پورے ’’اہتمام‘‘سے نکال دیاہے،جس کے بعداُن میں اورجنگل کے عام جانوروں،بلکہ سوّروں میں بھی کوئی فرق نہیں رہا۔ہم نے یہاں اِن کے لیے صرف پجنگلی جانورکی اصطلاح ناکافی سمجھی کیونکہ علامہ دمیریؒ نے ’’حیات الحیوان‘‘میں لکھاہے کہ کوئی نرجانوریہ برداشت نہیں کرتاکہ اُس کی مادہ کے ساتھ کوئی اورجانورملوّث ہو،البتہ سوّرواحدجانورہے جواس میں باک محسوس نہیں کرتا۔چونکہ یہی حال اِن لوگوں کابھی ہے،اس لیے اِن کے لیےسوّرکی اصطلاح ہی مناسب ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا،لاس اینجلس کے ولیمز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ ہے:
’’7لاکھ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جنس وہ نہیں ہے، جو ان کی پیدائش کے وقت تھی ،سو وہ اسے تبدیل کرانا چاہتے ہیں‘‘۔
ایسے ہی لوگوں کو ’ٹرانس جینڈر‘ یا ’ماورائے صنف‘ کہا جاتا ہے۔ اس مسئلے کو آج کل کے ماہرینِ نفسیات Gender Dysphoria ( جنسی احساسِ ملامت) کہتے ہیں ۔
جو لوگ اس نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں ،وہ ایک خاص قسم کے ’ٹرانس جینڈر‘ ہیں۔ ’جنسی احساسِ ملامت‘ کے نہ صرف نفسیاتی اسباب ہوتے ہیں، بلکہ حیاتیاتی (بیالوجیکل) اسباب بھی ہوتے ہیں۔ جنس تبدیل کروانے کا عمل ایک پیچیدہ مشق ہے، مگر ایک دعوے کے مطابق اس احساس کے متاثرین میں سے تقریباً پچاس فی صد لوگ جنس تبدیل کروانے کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔
ہم ٹھہرے مغرب کےنِرے غلام۔اس غلامی میں کسی پارٹی اورزبان،رنگ،نسل وغیرہ کاکوئی امتیازنہیں۔اس غلامی کے عملی مظاہرے وقتاًفوقتاًہوتے رہتے ہیں۔حال ہی میں ملکہ ایلزیبتھ کی موت پراِس کے مظاہرکھل کرسامنے آئے ہیں اوراس میں’’ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرہوئے،اُن کی زلفوں کے سب اسیرہوئے‘‘والی کیفیت دیکھنے میں آرہی ہے۔بیمار،معذور،کمزوراورجاں بلب آصف زرداری صاحب جنھیں عدالت میں پیش ہوتے ہوئے تویوں لگتاہے کہ عدالت میں نہیں،ملک الموت کے دربارمیں پیشی کے لیے کہاجارہاہے،حق نمک حلالی اداکرنے کے لیےبنفسِ نفیس برطانوی سیکرٹریٹ پہنچ گئے۔یہی کیفیت اِن سیاست دانوں کی اُس وقت بھی ہوتی ہےجب مغرب سے کوئی حکم آتاہے۔اُس حکم کی تعمیل یہ’’فرماں بردارغلاموں‘‘کی طرح بِلاسوچے سمجھے،بِلاجانے پرکھے،جوہےاورجیساہے کی بنیادپرکرتے ہیں۔اس فرماں برداری میں’’شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری‘‘کے مناظردیکھنے میں آتے ہیں۔حدیہ ہوتی ہےکہ بعض اوقات آقاکوبھی کہناپڑتاہے کہ تم توہم سے بھی آگے نکل گئے،جوکام ہم اب تک نہ کرسکے تم نے کردِکھایا،جیساکہ ٹرانس جینڈرایکٹ کی منظوری کے بعدڈاکٹرشیریں مزاری نے اسمبلی کے فلورپریہ بات بڑے فخرسے بتائی تھی کہ ٹرمپ نے کہا:جوکام اب تک ہم اپنے معاشرے میں نہ کرسکے،تم نے کردِکھائی!
اِس قرارداد کے محرکین کے ناموں پرذراغورکریں:روبینہ خالد (پیپلزپارٹی،خیبر پختون خوا) ،روبینہ عرفان (مسلم لیگ، ق، بلوچستان)، کلثوم پروین (مسلم لیگ، ن، بلوچستان) اور سینیٹر مسٹر کریم احمد خواجہ (پیپلز پارٹی، سندھ)پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کس بات کاثبوت دے رہی ہے؟لگ یہی رہاہے کہ اِنھیں صرف یہ حکم تھاکہ تمھاراکام ہے اِس بل کوپیش کرنااورمنظورکرانا۔حق نمک تھاجواداکردیاگیا۔شایدانھوں نے بھی جاننے،سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ اِس میں کیاہے؟اِس کے کیانتائج وعواقب اورفوائدثمرات ہوں گے؟اگرپہلے اس پرغورکیاہوتاتودبے لفظوں میں یہ توکہہ سکتے تھے:آقائے ولیِ نعمت!یہ نفسیاتی بیماری ہمارے ملک میں ہے ہی نہیں،جس کے مریضوں کوآپ تحفظ فراہم کرناچاہتے ہیں،پھریہ قانون کیوں؟