مولانا عبد الخالق ہمدرد صاحب حفظہ اللہ انتہائ مخلص ، محنتی اور طلباء کے ساتھ دلی ہمدردی رکھنے والے انسان ہیں ۔ طبیعت میں شائستگی اور وضع قطع میں سادگی اور نفاست بھی کمال کی ہے ۔ رکھ رکھاؤ میں بھی کچھ کم نہیں ۔ تحریر ہو کہ تقریر آپ اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں ۔ میرا تعلق مولانا سے اس وقت قائم ہوا جب میں درس نظامی کا آغاز ادارہ علوم اسلامی سترہ میل اسلام آباد میں کر رہا تھا ۔ میرے درس نظامی کے ابتدائی اساتذہ میں مولانا کا شمار ہوتا ہے ۔ اس بات پر میں اللہ سبحانہ وتعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اپنے تمام اساتذہ پر فخر ہے ۔ میں سب کو اپنا محسن سمجھتا ہوں ۔
بہرحال گفتگو کو مختصر کرتے ہیں ۔ میں ایک محفل میں تھا کہ ایک صاحب خود سے عمر میں کئی سال بڑے صاحب کا نام ایسی بے تکلفی سے لے رہے تھے جیسے وہ ان کے چھوٹے بیٹے کی جگہ ہو ۔ اس پر مجھے مولانا کا وہ واقعہ یاد آیا جو میں آپ کی گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ۔ مولانا نے فرمایا ” میرے ایک دوست اپنے کسی دوست سے ملنے ایک عرصے بعد گئے ۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے اپنے دوست سے پوچھا ” یہ تو بتائیے آپ کے بچے کتنے ہیں ؟ اور کس کس عمر کو ماشاءاللہ پہنچ گئے ہیں ؟ ” تو میزبان صاحب نے حیرت انگیز جواب دیا ۔ امید کرتا ہوں کہ میں اور آپ ایسے جواب کی توقع بھی نہیں کر سکتے ۔ کہنے لگے ” بچے تین ہیں ایک مجھ سے کوئی بارہ پندرہ سال بڑا ہے دوسرا بس یہی کوئی پانچ یا چھ سال بڑا ہو گا جبکہ آخری میرا ہم عمر ہی ہو گا ” مولانا فرماتے ہیں میرا دوست اس جواب پر چونک گیا ۔ ان کی حیرت کو دیکھتے ہوئے وہ صاحب خود ہی مخاطب ہوئے اور بولے سب سے بڑا تو میری سنتا ہی نہیں بلکہ مجھے سمجھاتا ہے ۔ درمیان والا کبھی سن لیتا ہے مگر کرتا عموماً اپنی ہے ۔ سب سے چھوٹا کچھ لو کچھ دو کے فارمولے پر معاملات طے کرتا ہے .
ساری بات کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے بچوں کو کم از کم اتنا بتا سمجھا دیں کہ بڑے سے بات کیسے کرنی ہے ؟ نام کیسے لینا ہے ؟ اسے مخاطب کیسے کرنا ؟ اگر کسی بات میں رائے کا اختلاف ہو جائے تو اس کا اظہار کیسے کیا جانا چاہیے ؟ وغیرہ