مرجینا نے جیسے ہی مٹکے کا ڈھکن کھولا
آواز آئی “سردار کیا مٹکے سے نکلنے کا وقت ہو گیا؟”
مرجینا نے بالترتیب انتالیس مٹکے چیک کئے پھر کہیں جا کر چالیسویں مٹکے سے تیل ملا جس سے اس نے اپنی ضرورت پوری کی اور کچھ تیل گرم کرکے باقی مٹکوں میں انڈیل دیا۔ مرجینا ایک عقل مند ملازمہ تھی یا نہیں،اس کو مہمان کے مٹکے سے تیل چرانے کا حق تھا یا نہیں اس بحث کو کسی اور وقت پر موقوف کرتے ہیں آج صرف” مٹکے” کی بات کرتے ہیں۔ آپ اسے “مٹکا نما پیٹ” نہ سمجھ لیجئے گا، ہم تو اس مٹکے کی بات کریں گے جو پرانے زمانے کی کہانیوں میں اکثر پایا جاتا تھا۔ کبھی کسی ایماندار آدمی کو زمین میں دفن مل جاتا، تو کبھی چور ڈاکو اپنے مال کو چھپانے کے لئے ہیرے جواہرات سے بھر کر کسی درخت کے تنے کے نیچے چھپا دیا کرتے تھے۔ بینک نہیں تھے تو کچھ سادہ لوح اپنی جمع پونجی مٹکے میں ڈال کر کسی باغ میں دفن کر دیتے۔ اور کبھی کسی ظالم دیو کی جان کالے غار کے کسی مٹکے میں پائی جاتی تھی۔
پرانے زمانے میں مٹکا گھر کا ایک اہم جز تھا۔اس کو گھر میں بہت اعلی مقام حاصل تھا۔ مٹکے کی تعریف کچھ یوں ہے “پانی رکھنے کا بیضوی شکل کا مٹی کا بنا ہوا بڑا گھڑا، گگرا، خم کلاں، مسکا، جھجر، صراحی غرض کئی نام دئیے جا سکتے ہیں۔
جس زمانے میں پائپ لائین دیہاتوں میں نہیں تھیں تو خواتین دور دراز سے پانی بھر کر ان ہی مٹکوں میں لاتیں۔ کئی کئی مٹکے اوپر تلے اٹھانا ساتھ بغل میں بچہ بھی دبائے رکھنا مہارت سے کم نہیں تھا۔ اسی مٹکے کو لے کر کئی عشقیہ کہانیاں بھی پروان چڑھیں۔جیسے سوہنی کا مشہور گھڑاجس پر وہ دریا پار مہینوال سے ملنے جاتی۔ کچھ پیاسے سرراہ کھڑے پانی مانگتے نظر آتے اور پانی پلاتے پلاتے کہانی کسی اور ہی کروٹ نکل جاتی۔ لوک گیتوں میں بھی مٹکے کو خاص اہمیت دی جاتی۔ گھروں میں مٹکے رکھنے کی خاص جگہیں بنائی جاتیں۔مٹکے کے اوپر مٹی کا ڈھکن نما پیالہ ہوتا جس سے پانی کو ڈھانپنے اور پینے کا کام لیا جاتا اور پانی انڈیلنے کا بھی مخصوص طریقہ کار ہوتا جس میں ایک خاص زاویے پر ترچھا کر کے پانی انڈیلا جاتا تھا۔ مٹکے میں ہاتھ ڈالنے کی قطعیت اجازت نہ تھی۔ ۔مٹکے کی خصوصیات میں پانی کو ٹھنڈا کرنا ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے۔ مٹی کے مٹکے اکثر ٹوٹ جاتے پھر ان کی ہلکی پھلکی مرمت سیمنٹ وغیرہ سے کی جاتی تھی مگر بہرحال مٹکا ٹوٹ جاتا تھا یا لیک ہو جاتا تو ایسے مٹکے کو اناج وغیرہ ڈالنے کے کام میں لایا جاتا۔ کبھی ٹوٹے مٹکے کی ٹھیکریاں سالن میں بگھار ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتیں جن میں سرخ کوئلوں پر ٹھیکری رکھ کر دیسی گھی میں لہسن کڑکڑایا جاتا اور پھر احتیاط سے ٹھیکری کو مصالحے سمیت پتیلے میں ڈالا جاتا۔ شخ کی آواز اور بگھار کی خوشبو سارے آنگن میں پھیل جاتی۔ وقت گزرتا رہا مٹی کے متبادل کے طور پر پیتل ، تانبے، سلور یا سٹیل کے مٹکے متعارف ہوئے اور ہاتھوں ہاتھ لئے گئے۔ یہ وزن میں بھی مٹی کے مٹکے کی نسبت ہلکے تھے اور ریت کے ساتھ مانجھنے پر چمک اٹھتے تھے۔ البتہ پینے کا پانی مٹی کے مٹکے ہی میں رکھا جاتا تھا۔ پھر مزید ترقی ہوئی گاؤں دیہاتوں میں فریج آئے تو برف ڈال کر پانی ٹھنڈا کیا جانے لگا۔ مگر مٹکے نے یہ ترقی یعنی برف قبول نہ کی ہوا یوں کہ برف یا ٹھنڈا پانی ڈالنے سے مٹکا “ڈوررا” یعنی بہرہ ہو جاتا تھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں پانی ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ خیر پھر مٹکے کی جگہ جدید کولر آ گئے۔مٹکوں کا سنہری دور ختم ہوا۔ اب کسی گاؤں دیہات کے پرانے گھروں میں کسی سٹور میں گرد مٹی سے اٹے نظر آتے ہیں۔ گھریلو خواتین نے مٹکوں کے ٹوٹنے سے اور دھاتی مٹکوں کے مانجھنے سے خلاصی پا لی اور گھروں سے مٹکے نکال دئیے اس سارے چکر میں پیٹ مٹکے بن گئے مگر خیر ہم ماڈرن ہو گئے البتہ محاوروں میں اب بھی مٹکے زندگی و تابندہ تھے مثلا
پھول کے کپا (گڑ گج۔ مٹکا) ہوجانا
پیٹ سے مٹکا باندھنا
دیدے مٹکانا
گھر مٹکا تو باہر مچیا
مٹکوں کو گھروں سے نکالے کچھ ہی عشرے گزرے تھے کہ کسی منچلے نے مٹکوں کا revival کیا۔ انسان مٹی سے بنا ہے تو مٹی اس کو اپنی طرف کھنچتی ہے۔ چاہے وہ بارش کی پہلی بوندوں کی صورت کچی مٹی سے اٹھتی خوشبو ہو یا مٹی کی ہانڈیوں میں بنے کھانے ہوں۔ تندوری چائے اسی مٹی کی محبت میں وجود میں آئی۔جس میں چھوٹے چھوٹے مٹکے نما برتن کو خوب گرم کر کے اس میں چائے انڈیلی جاتی ہے اور شخ کی آواز کے ساتھ چائے کے تڑپنے کا مزہ لیا جاتا ہے یوں وہ تندوری چائے بن جاتی ہے۔ لوگ بہت شوق سے ان جگہوں پر جانے لگے اور چائے کا لطف لینے لگے۔
مگر بات چائے تک محدود نہ رہی بلکہ گزشتہ چار پانچ سالوں میں مٹکا چائے کی فخریہ کامیابی کے بعد مٹکا سوڈا، مٹکا بریانی، مٹکا پلاو، مٹکا کافی ، مٹکا پیزا، مٹکا گوشت، مٹکا قلفی، مٹکا نہاری، مٹکا کلیجی،مٹکا حلیم، مٹکا دال چاول،مٹکا شاورمہ، وغیرہ منظر عام پر آ گئے۔ اس سے قبل مٹکا کھیر اور ہانڈی ہی مشہور تھے مگر اب تو لگتا ہے کہ جملہ کھانے مٹکوں ہی میں بنائے جانے لگے ہیں۔ دیسی کھانے ایک طرف بدیسی کھانے مکرونی، پیزا اور شاورمہ وغیرہ بھی اب مٹکوں میں چلے گئے ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے مرجینا نے چالیس مٹکے انہی کھانوں پر مشتمل دیکھے تھے۔