168

ناکامی سے مت ڈریے/تحریر/شکیل احمد رومی/اسسٹنٹ ایڈیٹر ہفت روزہ شریعہ اینڈ بزنس

اسسٹنٹ ایڈیٹر ہفت روزہ شریعہ اینڈ بزنس کے قلم سے حوصلہ بلند کرتی جامع تحریر

وہ حال ہی میں کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوا تھا۔ اس کے پاس بیش قیمتی چیز، چکن پکانے کی ترکیب تھی۔ وہ اپنی یہ ترکیب لیے مختلف ریسٹورنٹ کے مالکان سے ملا اور فروخت کرنے کی کوشش کی، مگر ہر کسی نے انکار کر دیا۔ اس نے ہمت نہ ہاری۔ ایک پرانی سی کار میں امریکا کی ہر ریاست میں گیا۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ رات بھی اسی پرانی سے کار میں گزارتا۔ وہ 1008 بار ناکام ہوا۔ اس کا مذاق اڑایا گیا کہ بابا جی آپ کا نسخہ امریکا میں نہیں چلے گا۔ اس نے ایک مشہور جملہ کہا: ”ہر ناکامی نے مجھے موقع فراہم کیا کہ میں نئے سرے سے شروع کروں اور کوئی نئی چیز آزماؤں۔”
وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرتا رہا، حتی کہ 1009 ویں دفعہ ایک ریسٹورنٹ کے مالک کو اس کی ترکیب پسند آ گئی۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ وہ کرنل دنیا کے مشہور ریسٹورنٹ KFC کا مالک ”سینڈر” تھا، جو ایک ہزار آٹھ دفعہ ناکام ہونے کے بعد کامیاب ہوا۔
ناکامی کامیابی کی شرط اول ہے۔ شاہراہ کامیابی ناکامیوں سے بھری پڑی ہے۔ ہم عموماً لوگوں کی کامیابیاں دیکھتے ہیں، ناکامیاں نہیں۔ کوئی بھی شخص ناکامی کے بغیر کامیاب نہیں ہوا۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ وہ لوگ جو 35 سال کی عمر میں کروڑ پتی بنے، وہ کامیابی سے پہلے اوسطاً 17 بزنس میں ناکام ہوئے، مگر انہوں نے کوشش جاری رکھی، حتی کہ 18 ویں بزنس میں کامیاب ہوئے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی فرد یا کمپنی پہلی کوشش میں کامیاب ہوئی ہو۔ پہلی کوشش میں کامیابی حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
تھامس ایڈیسن دنیا کا سب سے بڑا موجد تھا۔ اس نے ایک ہزار سے زائد چیزیں ایجاد کیں۔ بلب اور خشک بیٹری اس کی ایجاد ہے۔ بلب بناتے وقت وہ 10 ہزار سے زائد بار ناکام ہوا۔ ایک صحافی نے طنزاً کہا: مسٹر ایڈیسن! آپ دس ہزار بار ناکام ہوئے۔ ایڈیسن نے جواب دیا: میں 10 ہزار بار ناکام نہیں ہوا، بلکہ اب مجھے 10 ہزار ایسے طریقوں کا علم ہے، جس سے بلب نہیں بن سکتا۔ خشک بیٹری بناتے ہوئے ایڈیسن 50 ہزار بار ناکام ہوا۔
کامیابی دراصل نمبروں کا کھیل ہے۔ آپ جتنی زیادہ کوشش کریں گے، ناکامی بھی اتنی زیادہ ہو گی اور کامیابی کے امکانات بھی اتنے زیادہ۔ ایک اخباری نمائندے نے کمپیوٹر کی مشہور کمپنی آئی بی ایم کے بانی ٹی جے والٹن سے پوچھا کہ وہ کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے۔ واٹسن نے کہا:” اگر تم تیزی سے کامیاب ہونا چاہتے ہو تو اپنی ناکامیوں کی شرح کو دوگنا کردو”۔دراصل کامیابی ناکامی کے دوسری طرف ہوتی ہے۔ دنیا میں جتنے لوگ جتنا زیاہ ناکام ہوئے ہیں، اتنا ہی وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ ناکام ہونے والے لوگ جرأت مند ہوتے ہیں، وہ اپنی ناکامی کو تسلیم کرتے ہیں اور دوبارہ سے کامیاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ بل گیٹس ناکام لوگوں کو ملازمت کے لیے ترجیح دیتا ہے، کیونکہ یہ لوگ ترقی کے لیے نئی چیزیں بنانے کا خطرہ مول لیتے ہیں اور کامیابی کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔
ناکامی عارضی ہوتی ہے جب تک آپ اسے مستقل نہ بنائیں،چاہے وہ بزنس ہو یا آپ کی ذاتی زندگی۔ جب آپ ناکامی سے ہمت ہار جاتے ہیں،اسی لمحے ناکامی آپ پر غلبہ پا لیتی ہے۔ پھر وہ جس سمت آپ کو لے جانا چاہے لے جاتی ہے۔ کئی ایسے بڑے بڑے بزنس مین گزرے ہیں ،جنہوں نے ہمت ہاری تو خود کشی کی لپیٹ میں آگئے۔حال ہی میں مشہور ارب پتی پاکستانی بزنس مین نے خودکشی کی،جس کو سوچا جائے تو آدمی ورطہ حیرت میں چلا جاتاہے۔ کچھ لوگ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمت ہار کے ایسا قدم اٹھا رہے ہیں تو کچھ لوگ مال و دولت کی ریل پیل کے باجوود موت کی گھاٹی کا انتخاب کر رہے ہیں۔ سب کی بنیادی وجہ ہمت ہار جانا، ناکامی کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کرنا اور کوشش چھوڑ دینا ہے۔
مشہور فوٹو گرافر ایلن میک فیڈین پرندوںکی ایک ہیئت کی تصویر بنانے کے لیے 6سال تک کوشش لرتے رہے۔ 7لاکھ سے زائد مرتبہ ناکام ہوئے مگر ہمت نہیں ہاری اور کوشش کرتے رہے،بالآخر کامیاب ہو گئے۔
آپ اس قت تک ناکامی میں بھی کامیاب ہیں، جب تک آپ کوشش ترک نہیں کرتے۔ لوگ زیادہ پانی میں گرنے سے نہیں ڈوبتے، بلکہ اس میں پڑے رہنے سے ڈوبتے ہیں۔ جو کبھی گرا نہیں وہ چلا نہیں۔ جو بھاگ رہا ہے ٹھوکر اسی کو لگتی ہے۔ گرنے میں کوئی خرابی نہیں، مگر گرتے وقت آپ کا منہ منزل کی طرف ہونا چاہیے۔ بہادروں، جنگجوؤں اور گھڑ سواروں کی طرح بننا ہو گا، جو گھوڑے سے گرتے ہیں اور اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ گرنے کے بعد بیٹھے رہنا بزدلی ہے، موت ہے۔ آپ جس کام میں ناکام ہو رہے ہیں، ہوتے رہیں،لیکن رکیں نہیں، کوشش کرتے رہیں، وہ وقت آئے گا کہ جب آپ اس کام کے کامیاب انسان ہوں گے۔
٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں