78

نصاب تعلیم کیاہوتاہے (نصف اول)/تحریر/ڈاکٹر ساجد خاکوانی

مواد تدریس کونصاب تعلیم کہتے ہیں،قرآن مجیدمیں اللہ تعالی فرماتاہے کہ “علم آدم الأسماء كلها”ترجمہ:اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو سب اشیاء کے نام سکھائے۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ ارکان تدریس تین ہیں،معلم،متعلم اور معلوم۔یہ جو تیسرارکن تدریس “معلوم”ہے اسی کو نصاب تعلیم کا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔استاداورشاگردجب آمنے سامنے بیٹھتے ہیں تو عمل تدریس کاآغازہوجاتاہے تب ان کے درمیان کسی بھی موضوع پرجو گفتگو،تحریر،مباحثہ،مکالمہ،سوال و جواب،املاء یاحتی کہ اگر خاموشی بھی ہے توبھی وہ نصاب ہی ہے۔گویا مقاصد تعلیم کاحصول جن ذرائع سے ممکن ہے ان میں سے اہم ترین ذریعہ نصاب ہوتاہے۔استاداورشاگردجب کسی زمان و مکان میں مل بیٹھتے ہیں تو اس تعلق کے بھرم کاتقاضاہے کہ ان کے درمیان آموزش کاعمل جاری ہوجائے،ضروری نہیں کہ شاگردہی سیکھنے پراکتفاکرے بلکہ استاد بھی آموزش کے ذریعے کسب فیض کامحوربن سکتاہے،اس طرح یہ عمل دوطرفہ رویوں کاحامل ٹہرجاتاہے اور فریقین آموزش سے بہرہ مندہوتے ہیں،اس دوران جوامرپیش نظرہوتاہے وہ نصاب کہلاتاہے جوتعلیم اورتربیت کاجزولاینفک ہے۔جیسے عام حالات میں استادآگے چلتاہے اورشاگرداس کے پیچھے پیچھے قدم اٹھاتاہے اورغیرمحسوس طورپراستادکے ایک ایک تحرک کواپنی شخصیت میں اتارتاچلاجاتاہے ،بعض اوقات جب اندھیراہویابارش ہو یا کوئی دیگرغیرمعمولی حالات ہوں تو ضرررسانی سے بچت کی خاطر شاگردآگے آگے چلتاہے اور استادکے لیے روشنی کاانتظام کرتاہے یا پھر راستے کے صاف ہونے کی خاموش ضمانت فراہم کرتاہے تب استاداپنے قدم آگے بڑھاتاچلاجاتاہے اور اگر استادپیرانہ سالی کامرقع ہوتو شاگرد اپنے استادمحترم کادست مبارک بھی تھام لیتاہے تاکہ بوقت ضرورت سہارافراہم کرنے کاسبب بن سکے۔اس مثال میں دوطرفہ آموزش کارفرماہے اوردونوں طرف کے رویے نصاب تربیت ہیں،جونسل درنسل ایک طبقہ دوسرے کومنتقل کرتاچلاجاتاہے۔نصاب کی بنیادیں چار ہوتی ہیں،عقیدہ،اخلاقیات،تہذیب و تمدن اورعمل تعلیم۔عقیدہ دراصل صرف نصاب کوہی نہیں بلکہ پورے نظام تعلیم کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرتاہے۔جس طرح ہواکے بغیرسانس لیناممکن نہیں اسی طرح عقیدے کے بغیرنصاب کی تدوین وتدریس ممکن ہی نہیں۔عقیدہ کوئی بھی ہوسکتاہے،اگر نظریہ تعلیم عقیدہ توحیدپربنیادکرتاہوتویہ انبیاء علیھم السلام کے فراہم کردہ نظام تعلیم کے نصاب کا اعلی ترین منہج ہے جس کاانجام حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی یوں ہے کہ”فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا(10)یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا(11)وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاﭤ(12)”ترجمہ”تومیں نے کہالوگواپنے رب سے معافی مانگوبے شک وہ بہت معاف کرنے والاہے،وہ تم پرموسلادھاربارش بھیجے گااوراموال سے اوراولاد سے تمہاری مددکرے گا،اورتمہارے باغات اگائے گااورتمہارے نہریں چلادے گا”۔تاہم کفروشرک،نفاق،الحادودہریت ،زندیقیت،فسق و فجور،جمع مالاََوعدداور ھل من مزید بھی تاریخی طورپراوررائج الوقت عقیدے ہیں اور دنیابھرکے کتنے ہی نظام ہائے تعلیم ہیں جن کے نصاب انہیں عقیدوں کے تقاضوں کو نبھاتے ہیں ۔عقیدہ جس طرح کاہوگا اسی طرح کی نسل تیارہوگی،اگرعقیدہ خداشناسی سے متعلق ہوگاتو آنے والی نسلیں کسی بالاترقوت کے ادراک کی مالک ہوں گی ،اس کے سامنے احساس جوابدہی کاتصوررکھتے ہوئے زندگی گزاریں گی اور ان کے اندر باہمی ہمدردی اور الفت و محبت کی شیریں ندیاں جاری رہیں گی اور اگرنصاب کی بنیاد خدا بیزارعقیدہ ہو گا یا ایسانظریہ ہوگاجس میں خداکو عبادت گاہوں میں قیدکرکے رکھاجائے گاکہ جس کی مرضی ہوخداسے ملاقات کرآئے اورباقی نظام زندگی میں خداکاکوئی عمل دخل نہ ہوگا،پارلیمان،عدالتیں،تھانے،کچہریاں بازار،تعلیمی ادارے،کارخانے پنچائیتیں،جرگے اورباہمی تعلقات تک جب خداشناسی سے نہ صرف یہ کہ دورہوں گے بلکہ تدریجاََ یاکلیتاََخالی ہوجائیں گے اور نصاب تعلیم خالصتاََانسانی عقل وخرد،تجربہ ومشاہدہ اور لسانی ونسلی وعلاقائی اورجغرافیائی بنیادوں پراستوار ہوگاتو پھر قرآن مجیدکی سورۃ آل عمران کے مطابق انسانیت اس انجام تک پہنچ جائے گی کہ”اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰٮهُ ۗ”ترجمہ”کیاآپ نے کبھی ایسے شخص کے حال پرغورکیاہے جس نے اپنی خواہش نفس کواپناخدابنالیاہو”۔نصاب کی دوسری بنیاداخلاقیات ہے۔اخلاقیات دراصل عقیدے و نظریے سے ہی پھوٹنے والا پھل ہے۔عقیدہ و نظریہ اگرمیٹھاہوگاتو پھل بھی بالیقین شیریں اور ذائقہ سے بھرپورہوگااور بصورت دیگرکڑواکسیلا اورزہریلا پھل ہی اس پیڑ سے اتاراجاسکے گا۔اخلاقیات کے بلاشبہ دو معیارات ہیں؛ایک عقیدہ آخرت سے پھوٹنے والا چشمہ انسانیت ہے اور دوسرااس کے برعکس۔جوآخرت پر یقین کرنے والا نصاب ہوگااس میں بچوں کوبتایاجائے گاکہ نیکی اوربدی کابدلہ اللہ تعالی نے دیناہے اوریوں انسانوں سے بدلہ اوراجر چاہنے کی ریت ختم ہوجائے گی اورصرف رضائے الہی کے لیے ہی کسی دوسرے کے ساتھ بھلائی کرکے اجر،بدلہ،معاوضہ اورواپسی کی توقع یوم حساب صرف اللہ تعالی سے رکھی جائے گی۔بصورت دیگر ہربھلاکرنے والا جب دوسروں کی طرف سے براہی پائے گاتومایوس ہو کر خود غرض بن بیٹھے گاتب جہاں سے اسے اچھے بدلے کایقین ہوگا وہاں پروہ بھلائی کرتانظرآئے گااور دوسری جگہوں پروہ بھلائی کرنے کوکارلاحاصل سمجھے گااوراپناہاتھ کھینچ لے گا،اوریہیں سےسرمایادارانہ نظم معیشیت کاآغازہوتاہے جس میں غریب،کمزورلاغر،مجبور،دائمی بیمار،محتاج اورمسکین وغیرہ کو معیشیت پربوجھ سمجھ لیاجاتاہے کیونکہ یہ صاحب ثروت کواس کے بھلے کابدلہ نہیں اداکرپاتے۔تہذیب و تمدن نصاب کی تیسری اہم بنیادہے،ہرعلاقہ دوسرے سے اپنی آب و ہوا،زمینی ساخت،خوردونشت،آداب و اطواراورلباس وغیرہ میں مختلف ہوتاہے۔ہرانسان خدائی فیصلے کے تحت کسی خاص علاقے میں جنم لیتاہے اوراس علاقے کے خواص فطرتاََاس میں عود کرآتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے علاقے کوگویااپنے اندرسموتاچلاتاہے اور اس علاقے کی تہذیب و تمدن اس کی پرورش کالازمی حصہ بن جاتے ہیں۔ان حالات میں اگراس کانصاب بھی اسی تہذیب و تمدن سے مطابقت رکھتاہوگاتووہ ایک مکمل شخصیت بن کر ابھرے گااور اپنی نسل میں تہذیب کی بڑھوتری کاباعث بنے گا۔نصاب جب مقامی تہذیب و تمدن کے مطابق ہوتاہے تو بچے کو اسباق سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی،بہت سے تصورات اس کے ذہن میں پہلے سے راسخ ہوتے ،مقامی روایات اس کے کرادارمیں پہلے سے رچ بس چکی ہوتی ہیں،مقامی معاشرتی معیارات اس کے مشاہدوں میں اپناخاص مقام بناچکے ہوتے ہیں اورعلاقائی کہانتیں ،مقامی مشاہیراورکسی حدتک نسلی مخافرات بھی اس بچے کے نظرمیں سمارہے ہوتے ہیں۔تب ان حالات میں بچے کے لیے تعلیم کاحصول بہت آسان ہوجاتاہے کیونکہ نصاب اور تہذیب و تمدن باہم مطابقت کے حامل ہوتے ہیں۔اس کے برعکس اگرایک قوم کے بچوں کو دوسری قوم کی تہذیب سکھائی جائے توتعلیم بہت مشکل کاشکارہوجاتی ہے کیونکہ بچے دوہری شخصیت کے مالک بنتے ہیں،نصاب میں انہیں جو تہذیب سکھائی جاتی ہے عملاََ وہ ان کے سامنے موجودنہیں ہوتی ،نصاب میں بچوں کو جس تمدن کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں اسے وہ مشاہدہ نہیں کرپاتے جس کے باعث ان کی تدریس میں ایک خلا باقی رہ جاتاہے جوعملی زندگی میں کبھی پورانہیں ہوپاتاکیونکہ وہ نصاب میں پڑھائی گئی تہذیب کے علاقوں میں سدھاربھی جائیں توانہیں تادم مرگ عدم قبولیت کے رویوں کاسامناکرناپڑے گاجو ان کی فطرت کے لیے سم قاتل کادرجہ رکھے گا۔اغیارکاتہذیبی نصاب کاایک نقصان یہ بھی ہے نوجوانوں کے دلوں سے اپنی تہذیب و تمدن سے محبت،حب الوطنی اوراپنے تاریخی و رثے سے لگاؤ اوراپنے مشاہیرسے قلبی وابستگیاں ختم ہوجاتی ہیں،شعاراغیاران کا نصب العین بن جاتے ہیں اوریوں نسلیں ضائع ہوجاتی ہیں اور قوموں میں کسی معیاری قیادت کاجنم لینا ممکن ہی نہیں رہتااور یہ ذہنی غلامی کی ایک مکروہ ترین شکل ہوتی ہے۔نصاب کی چوتھی اوراہم ترین بنیاد عمل تعلیم ہے۔عمل تعلیم میں جتنااخلاص اور استنادہوگا یہ اتناہی موثر،دیرپااورنسلوں تک پرتاثیر ہوگااورعمل تعلیم میں جس قدرخودغرضی،مالیات اور مفادپرستی شامل ہوں گی یہ اتنا ہی کھوکھلا،بودھااوروقت کے ضیاع کاباعث ہوگا۔عمل تعلیم کے اہم ترین کردارمعلم و متعلم ہیں،اگرچہ اس کے علاوہ بھی بہت سارے عناصرکارفرمارہتے ہیں لیکن ان کاکردارثانوی یااس سے بھی زیریں ترہوتاہے جن کے تذکرے کایہ موقع نہیں۔استاداورشاگرد میں جس قدرقرب،پیارمحبت،ادب و احترام،باہمی الفت ووارفتگی اور اقامت حدوداللہ ہوگی عمل تعلیم اسی قدر وقیع،دوررس اورقابل اعتمادہوگا اوربصورت دیگر عمل تعلیم ان تبرکات سے خالی رہے گااور استاد و شاگرد کاتعلق محض ایک کاروباری معاہدے سے آگے نہ بڑھ سکے گااورسماجی آلودگی کاشکارہوتارہے گانتیجۃ معاشرے کی تعلیمی بنیادیں ریت کے ٹیلے ثابت ہوں گے جن پرآنے والی نسلوں کی تعمیرہونے والی عمارت کسی بڑے سانحے کو برداشت کرنے کاحوصلہ نہیں پائیں گی اور انتشار ہی انسانیت کامقدر بنارہے گا۔نصاب سازی میں اگرمرکزیت معلم کوحاصل رہے گی تونتائج تعلیم حوصلہ افزاہوں گے اور معلم کااعتمادنفسی اس کے پیشہ ورانہ امورکی ادائگی میں اخلاقیات کامرقع ثابت ہوسکے گا۔اس کے برعکس اگر نصاب سازی کے ماہرین نے مرکزیت کے دائرے سے معلم کونکال کر متعلم کوداخل کردیاتو نظام تعلیم کی بنیادیں ارتعاش کاشکاررہیں گی اورمعلم صرف مفادات کی حدتک ہی نظام کاحصہ رہے گااورشاگردوں سے صرف واجبی ساتعلق تعلیمی ارتقاء اورمعیارتعلیم میں تعطل و زوال کاباعث بنے رہیں گے۔ نصاب کے چھ عناصر ہوتے ہیں ،مواد تدریس،ذریعہ تدریس،معلم ومتعلم ،تدریج اورپیشہ ورانہ اخلاقیات۔(جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں