شاعری/محمد عرفان حذیفی
درود لب پہ ہو اور سامنے مدینہ ہو
چلوں میں جانبِ طیبہ کوئی سفینہ ہو
کبھی تو میں بھی چلوں عاشقوں کے سنگ خدا
پڑا ہوں در پہ نبی کے یہی مہینہ ہو
ہو میرا گھر بھی وہیں پر وہیں پہ جیتا رہوں
یہی ہے مقصدِ اصلی یہی قرینہ ہو
درود پڑھتے ہوئے موت بھی گر آجائے
بروز حشر خدا یہ مرا خزینہ ہو
میں پہنچوں کعبہ وہاں سے مدینے پاک چلوں
وہیں پہ موت بھی آئے وہیں دفینہ ہو