حفیظ چوہدری
مرکزی صدر
اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان

ترقی یافتہ ممالک میں آج انٹرنیٹ کے دور میں بھی کتابیں پڑھنے کے رجحان میں غیر معمولی کمی نہیں ہوئی۔ وہاں زیادہ تر گھروں میں کتابوں کا کچھ نہ کچھ ذخیرہ دکھائی دیتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب ان کی ضروریات زندگی میں شامل ہے۔ جدید دور میں اگرچہ مطالعے کے لئے نئے نئے ذرائع متعارف کروائے گئے ہیں اور پھر ٹیکنالوجی کے باعث علم کے حصول میں انقلاب برپا ہوچکا ہے مگر یہ کہنا غلط نہیں کہ کتابوں کی دائمی اہمیت و افادیت اپنی جگہ قائم و دائم ہے اور اس میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی ہے لیکن ہمارے خیال میں کتاب انسان کو عملی میدان میں گامزن ہونے کی ترغیب دیتی ہے اور اسی اعتبار سے کتاب ہماری صرف رفیقِ تنہائی ہی نہیں بلکہ ہمارے حال اور مستقبل کی بھی محسن ہے۔آج کے دور میں جو بھی ترقی ہورہی ہے وہ علم اور کتابوں کی ہی مرہون منت ہے۔ کتب بینی نے انسان کی معلومات میں رفتہ رفتہ اس قدر اضافہ کردیا ہے کہ آج کے انسان کے لئے کوئی کام ناممکن نہیں رہا۔
جب سے کائنات انسانی نے وجود خلعت پہنی ہے ،عظمت انسانی کو اوج ثریا تک پہنچانے اور مسجود ملائک بنانے میں ’’ن والقلم وما یسطرون‘‘ کے مقدس دھارے بہتے رہے ہیں۔ صنف مخالف ،جہالت ،فخر ومباہات ،غرور و تکبر اور ظلم و ستم نے بھی تقریباً اسی وقت سے آنکھ کھولی ہوئی ہے ۔ باد مخالف خواہ کتنے ہی زوروں سے چلے کوئی نہ کوئی علم کا پروانہ اسے اپنی پرواز کا بہانہ بنا کر آگے بڑھا اور بڑھتا ہی چلا گیا ۔اس کی تندی ،اس کی نخوت اور تیزی کا غرور خاک میں ملاتا رہا ۔
تلوار تاریخ حیات میں جب بھی چمکی ،جہاں چمکی ، جس انداز سے چمکی سامان ہلاکت ہی بنی۔چیخوں ،آہوں کے سوا اس کی وراثت کیا ہے ۔ محبت و الفت تو اس کی لغت میں شامل ہی نہیں۔جب کہ علم و فضل کا علمبردار قلم اگرچہ کبھی کبھی منفی کردار بھی ادا کرتا رہا ہے اور پیسہ کے لالچ میں کبھی اس سے غلط الفاظ بھی ادا ہوئے لیکن اس کا اکثر استعمال تعلیم و تعلم ،ترقی و عروج ،انس و محبت کیلئے ہی ہوا ہے ۔
یہ مانا کہ تلوار فاتحین کا زیور،بہادروں کا جوہر اور جرأت و ہمت کا نشان ہے، لیکن چشم تصور سے یہ حقیقت ایک لمحہ کے لیے بھی اوجھل نہ ہونے پائے کہ تلوار کے سامنے جھکا ہوا سر دب تو گیا ،کٹ بھی گیا ،لیکن تسلیم کی خو سے آشنا نہ ہوا اورجب بھی موقع ملا اپنی ہزیمت اور شکست کا بدلہ لینے کے لیے اٹھا تو قیامت برپا کرگیا۔فضائے دہر کو مغموم کر دیا اور ماحول سوگوار ہوگیا۔مگر قلم کے حضور جھکا ہوا سر ایسا سرنگوں ہوا کہ ہمیشہ سرنگوں ہی رہا ۔اس کا فیصلہ نوشتہ دیوار بن گیا ۔
تلوار صرف تلوار ہے اور قلم قلم بھی ہے اور تلوار بھی ۔تلوار صرف ظلم و بربریت ہے اورقلم ظلم و بربریت بھی ہے اور امن و آشتی کا پیغام بھی ۔ تلوار صرف نفرتوں سے عبارت ہے ،قلم نفرت بھی پھیلاتا ہے اور محبت کے زمزمے بھی بہاتا ہے ۔ تلوار صرف جوش ہے ،قلم جوش بھی ہے اور ہوش بھی ۔تلوار کا کام صرف کاٹنا ہے ،قلم کاٹتا ہے اور کٹے ہوئوں کو جوڑتا بھی ہے ۔تلوار صرف ماضی ہے ،قلم ماضی بھی ہے ،حال بھی اور مستقبل بھی ،تلوار چاہتوں ،خواہشوں اور حرص کی جنگ بجھانے کے لیے استعمال ہوئی ہے ،حالانکہ قلم کہیں تو خلوص کے لیے بھی ضرور استعمال ہوا ہے ۔ تلوار کے استعمال میں فخر کم اور ندامت زیادہ ہے جب کہ قلم کا استعمال سراپا فخر ہی فخر ہے اور ندامت کا احتمال بہت ہی کم ہے۔
کسی شخصیت یا کتاب و رسالے پر تبصرہ کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے ،مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ شخصیت یا کتاب و رسالے کے بارے میں تعریف یا ناقد و مویّد کو پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے پلڑے میں ڈال کر مخصوص چھاپ کے سانچے میں ڈھال دیتی ہے ،اس سے بڑھ کر دشواری اس وقت درپیش ہوتی ہے جب شخصیت اورکتاب ایک دوسرے سے منسلک ہوں ،لہٰذا دونوں سے متعلق اظہار خیال اور رائے زنی میں احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرنا فنکاری کے زُمرے میں آتا ہے ،جبکہ راقم اس نوع کی صلاحیت سے عاری ہے ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی کتاب از خود منظر ِعام پر نہیں آتی،اس کے پیچھے بہت سے لوگوں کی مساعی ، محنت اور کارکردگی کا اشتراک ہوتا ہے ،لیکن یہ اشتراک اس صورت میں کامیاب ہوتا ہے جب اس میں راہنمائی و قیادت کے جوہر شامل ِ حال ہوں ۔
لاہور جیسے شوروشغب ،بسنت و بہار اور لذت ِ کام و دھن سے شغف رکھنے والے شہریوں کی رونق و زندہ دلی سے مزین تاریخی شہر میں گذشتہ دنوں ایک ادبی تقریب کے دوران ابھرتی ہوئی نوجوان لکھاریہ محترمہ فلک زاہد صاحبہ سے ملاقات ہوئی ۔دوران ملاقات علمی و ادبی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ملاقات کے اختتام پر ننھی لکھاریہ نے اپنی تازہ تصنیف ’’قدیم چرچ ‘‘ بطور ہدیہ پیش کی ۔
موصوفہ اس سے قبل بھی دو کتب لکھ کر علم و ادب میں اپنا نام و پیغام متعارف کرواچکی ہیں ۔فلک زاہد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ شہر لاہور میں ہونے والی ہر ادبی تقریب کا حصہ ہوتی ہیں،کیونکہ انہیں خبر ہے جہاں ادیب جمع ہوں گے وہاں سے ادب ملے گا ۔اس لئے ادب اور ادیب لوگوں کو تلاش کرنا ان کا بہترین مشغلہ ہے ۔آپ لکھتی ہیں اور مسلسل لکھتی ہیں اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ آپ کو لکھنے کا جنون ہے ۔آپ روائتی انداز میں کہانیاں یا ناول بالکل بھی نہیں لکھتیں بلکہ آپ کی تحریروں میں ہمیشہ کچھ نیا پڑھنے کو ملتا ہے ۔
ہماری دانست میں فلک زاہد کی کتاب’’قدیم چرچ‘‘ اصلاح کی غرض سے ایک تحریک کی حیثیت رکھتی ہے … لیکن اس تحریک کو زیادہ موثر اور مقبول بنانے کیلئے مزید مربوط اورمتنوع بنانے کی ضرورت ہے۔
اشاعتوں کے آج کے ہجوم میں جہاں مقابلے اور مسابقت کی دوڑنے اشاعتی اداروں کو جدت اور تنوع کی طرف راغب کیا ہے وہاں معیار نے بھی قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے ۔اور یہ وہ میدان ہے جس میں ہمیشہ بہتری اور عمدگی کی گنجائش ہوتی ہے ،بلاشبہ مہنگائی کے اس پر آشوب دور اور وسائل کی کم دستیابی ہر کام میں بڑی رکاوٹ رہتی ہے جس کے اثرات رسالوں،جرائد اور کتب پر بھی مرتب ہوتے ہیں ،لیکن اگر انسانی وسائل اور صلاحیتوں کو اچھے انداز میں استعمال میں لایا جائے تو لاحق مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔بلاشبہ اگر پروف ریڈنگ کا معیار اچھا نہ ہو تو کتاب کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور رائٹر بھی بددل ہوجاتا ہے ۔قطع نظر مسطور بالاکے یہ بات تعریف وستائش کی مستحق ہے کہ فلک زاہد نے لا محدود حلقوں میں پزیرائی حاصل کرلی ہے…یہ وہ حلقے ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق علم و ادب کی دنیا سے ہے۔
گذشتہ تین سالوں میں ادب میں بہت سے نئے چہرے دیکھنے کو ملے ،جن میں خواتین و حضرات دونوں شامل ہیں۔ فلک زاہد سے پہلی ملاقات تو یاد نہیں مگر وباء کے دنوں میں شہر لاہور میں ہونے والی دوتین تقریبات میں یکے بعد دیگرے ملاقاتیں ہوئیں تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر رہبر اور رہنما اچھے مل جائیں تو انسان کی زندگی سدھر جاتی ہے ۔یقینا فلک زاہد کو والدین کے بعد اساتذہ کرام اور آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسویسی ایشن نے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیئے ہیں ۔دعا ہے رب العزت فلک زاہد کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور قلم ،صحت اور عمر میں مزید برکتیں عطاء فرمائے ۔
آمین یارب العالمین