74

نواب زادہ نصراللہ خان/تحریر/امداداللہ طیب

تحریر/امداد اللہ طیب

پاکستان کی سیاسی تاریخ اور جدوجہد آزادی جمہوریت کے درخشندہ باب کا جب بھی تذکرہ ہو گا ایک ہی نام ہے جس پر ہر سیاستدان بلا چون و چرا متفق نظر آئے گا اور وہ نام جو پاکستان کی حزب اختلاف کا اہم ہی نہیں سب سے بڑا ستون تھا۔ اس بڑے نام سے تاریخِ پاکستان کی پہلی، دوسری اور شایدتیسری جنریشن بھی بخوبی آگاہ ہو۔یہ اسم ِ گرامی سب کے محترم مرحوم و مغفورنواب زادہ نصر اللہ خاں ناصرؔ کاہے۔

آپ کا شمارتحریک آزادی پاکستان کے عظیم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔مجلسِ احرار کے سیکرٹری جنرل بھی رہے اور بعد ازاں پاکستان جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی جس کے تادم مرگ سربراہ رہے؛
نواب زادہ نصر اللہ خاں کا یہ طرہ امتیاز رہا کہ انہوں نے سا ری زندگی اصولوں کی سیاست کی اورنظریات پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام اور مضبوط جمہوری سسٹم کے حوالے سے آپ کی کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
نوابزادہ نصراللہ خان کا تعلق پٹھانوں کی لیلیزیئ شاخ سے تھا اور ان کے آبا و اجداد اٹھارویں صدی میں مظفر گڑھ کے علاقہ میں آباد ہوئے تھے۔ مظفرگڑھ سے تقریبا بیس کلومیٹر دور خان گڑھ کے علاقہ میں نوابزادہ کا آبائی گھر اور زرعی زمین واقع ہے۔
متحدہ ہندوستان میں انگریز حکومت نے نوابزادہ نصراللہ کے والد سیف اللہ کو انیس سو دس میں نواب کے خطاب سے نوازا اور گیارہ گاؤں الاٹ کیے تھے۔

نوابزادہ نصراللہ خان نے اپنی خاندانی روایت سے انحراف کرتے ہوئے حکومت سے تعاون کی بجائے اقتدار کی مخالفت کی سیاست کا آغاز کیا۔ انھو ں نے طالب علم کی حیثیت سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے برعکس حکمران جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہونے کی بجائے مسلمانوں کی اصول پسند جماعت مجلس احرار میں شمولیت کی۔ احرار کا نصب العین انگریزوں کا برصغیر سے انخلاء تھا۔

نواب زادہ نصراللہ خان کی سیاست میں جمہوریت اور اسلام اہم عناصر رہے۔ انھوں نے ممتاز دولتانہ کی زرعی اصلاحات کی مخالفت میں پیر نوبہار شاہ کے ساتھ مل کر انجمن تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ بھی قائم کی اور انیس سو ترپن میں ختم نبوت تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔

نواب زادہ صاحب نصراللہ خاں 1918ء خان گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ وہ 1933ء تک ایک طالب علم رہنما کے طور پر معروف ہو چکے تھے۔ انہوں نے مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے بر صغیر کی آزادی کیلئے جدوجہدو کی۔ وہ اس عظیم الشان اور تاریخی اجتماع میں موجود تھے جنہوں نے23مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور پاس کی۔ آزادی کے بعد وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے 1952ء میں صوبائی اور 1962ء میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ پھر انہوں نے جناح عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی جو بعد میں عوامی لیگ کہلائی جب حسین شہید سہروردی اس کے صدر تھے تو وہ اس کے نائب صدر رہے۔ انہوں نے 1964ء میں صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی بھر پور حمایت کی۔ انہوں نے ایوبی آمریت کے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔

اس طرح ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی وجود میں آئی جس نے ایوب خاں کی حکومت کے خلاف عوامی جدوجہد کی راہ ہموار کی۔ اس اتحاد کی کامیابی مستقبل کی ہر جمہوری جدوجہد کیلئے مشعل راہ بنی

انہوں نے 1969ء میں پاکستان جمہوری پارٹی کے نام سے اپنی الگ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ نواب زادہ صاحب 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کے اہم ترین رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ 1977ء کے الیکشن میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن پارٹی پالیسی کے مطابق حلف لینے سے انکار کر دیا وہ قومی اتحاد کی طرف سے لئے الیکشن کیلئے پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم کے رکن تھے۔ لیکن جب مذاکرات کا میاب ہو گئے تو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا جس کی انہوں نے بھر پور مخالفت کی۔
1988ءکے صدارتی انتخاب میں انہوں نے غلام اسحاق خان کا مقابلہ کیا۔ 1993ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں انہیں کشمیر کمیٹی کا چیرئمین بنا یا گیا اور ان کے بیٹے کو صوبہ پنجاب میں وزیر بنایا گیا۔ مسئلہ کشمیر کواجاگر کرنے کیلئے انہوں نے بہت سے ملکوں کے دورے کئے اور ان کی کوشش کے نتیجے میں اسلامی ملکوں کی تنظیم کے سربراہی اجلا س منعقد کا بلانکا میں ایک متفقہ قرارداد میں کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کی کوششوں کی بدولت برطانیہ کی لیبر پارٹی نے مسئلہ کشمیر کے حل کو اپنے منشور کا حصہ بنا لیا۔

نواب زادہ صاحب نہ ایک بڑے سیاستدان تھے بلکہ ایک بڑے انسان بھی تھے وہ اپنی سادگی،حلیمی اور خلوص سے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے آج بھی نکلسن روڈ کے اس چھوٹے اور سادہ سے مکان کا بڑا کمرہ جس میں ان کی زندگی کے شب و روز گزارتے تھے بہت سے لوگوں کو یاد آ رہا ہوگا۔ گو نواب زادہ صاحب ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن انھوں نے ہمیشہ انقلابی سیاست کی وہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ عوام کی بات کرتے تھے انہو ں نے ضیائی امریت قید کے دوران اپنے انقلابی ہونے کا اس طرح اظہار کیا۔

کتنے بیدرد ہیں صر صر کو صبا کہتے ہیں

کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں

آخر میں کہتے ہیں

کل بھی حق بات جو کہنی تھی سر دار کہی

آج بھی پیش بتاں نامِ خدا کہتے ہیں

آج جب ہم ایک انقلابی اورجمہوری سیاستدان کی برسی منارہے ہیں توہمیں عہدکرناچاہئے کہ ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت ہونی چاہئے۔ پارلیمنٹ کوتمام فیصلے کرنے چاہئیں۔ عدلیہ ہرقسم کے دباؤسے آزادہو۔میڈیاپرکوئی پابندی نہ ہواورتمام ادارے اپنی اپنی حدودمیں رہ کراپنے آئینی فرائض انجام دے رہے ہوں۔نوابزادہ نصراللہ خان کاایک اورسبق بھی یادرکھناچاہئے کہ مذاکرات کے دروازے کبھی بندنہیں کرنے چاہئیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان سمیت تمام قائدین کویہ سبق نہیں بھولنا چاہئے۔ مذاکرات دشمن ملکوں کے ساتھ ہوسکتے ہیں تو پھر اپنے لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں؟مرحوام نوابزادہ نے ایوب خان،بھٹو، جنرل ضیاء،جنرل پرویزمشرف سمیت سب سے مذاکرات کئے تاکہ جمہوریت بحال ہو۔آج کا سبق بھی یہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں