نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی نے سکولوں میں آشوبِ چشم کی صورتِ حال کا جاٸزہ لینے کے لٸے گزشتہ روز گورنمنٹ پاٸلٹ ہاٸیر سیکنڈری سکول وحدت روڈ لاہور کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران ان کے سامنے تعلیمی مساٸل کے وہ گوشے سامنے آٸے کہ وہ اپنے وزٹ کا اصل مقصد بھول کر تعلیمی مساٸل پر مبنی ہوش ربا انکشافات سن کر سر پکڑ کر بیٹھ گٸے۔وزیرِ اعلیٰ یہ جان کر کافی حیران ہوٸے کہ ساڑھے سولہ سو طلبہ کے لٸے صرف ساٹھ اساتذہ کا تقرر کیا گیا مگر اس حقیقت کا علم ہونے پر وہ ششدر رہ گٸے کہ عملی طور پر صرف پندرہ اساتذہ سولہ سو پچاس طلبہ کے لٸے دستیاب ہیں۔ ساٹھ میں سے دس اساتذہ صاحبان لمبی رخصت پر ہیں یا ڈیپوٹیشن پر دوسرے محکموں میں اپنے فراٸض سرانجام دے رہے ہیں جبکہ ماہانہ تنخواہ وہ اسی ادارے سے وصول کر رہے ہیں۔ باقی پچاس میں سے پینتیس اساتذہ کی خدمات الیکشن کمیشن نے حاصل کر رکھی ہیں جو گزشتہ کٸی ماہ سے سکول نہیں آ سکے۔ باقی پندرہ اساتذہ طلبہ کی اتنی بڑی تعداد کو پڑھا رہے ہیں جو کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ وزیرِ اعلیٰ صاحب کو بتایا گیا کہ اس سکول کو سات سال قبل اپ گریڈ کر کے ہاٸی سے ہاٸیر سیکنڈری کا درجہ دیا گیا تھا مگر آج تک اس سکول میں کسی ایک سبجیکٹ سپیشلسٹ کا تقرر نہیں کیا گیا۔ ایلیمنٹری یا ہاٸی حصہ کے اساتذہ ہی انٹرمیڈیٹ کی کلاسز کو پڑھا رہے ہیں۔ جنابِ وزیرِ اعلیٰ سکول کی زبوں حالی پر حیران تو تھے ہی مگر وہ ازحد پریشان بھی لگ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا کہ گزشتہ آٹھ ماہ میں جب سے ان کی حکومت بنی ہے وہ خود بھی اس پر توجہ نہیں دے سکے۔ انہوں نے میڈیا کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا کہ اس نے اس مسٸلے کو ہاٸی لاٸٹ کیوں نہیں کیا۔دیر آید درست آید کے مصداق پنجاب کے سب سے بڑے عہدے پر براجمان اعلیٰ شخصیت کو تعلیم اور سکولوں کے مساٸل کا ادراک تو ہوا۔ ہم انہی سطور میں بارہا پنجاب میں تعلیم کی زبوں حالی اور تعلیمی مساٸل کی نشاندہی کر چکے ہیں مگر سب کچھ ابھی تک صدا بصحرا ثابت ہوا ہے۔ دیگ میں پکے ایک چاول سے پوری دیگ کے ذاٸقے کا پتا چل جاتا ہے۔ جناب وزیرِ اعلیٰ صاحب کو علم ہو گیا ہو گا کہ جب لاہور شہر میں یہ حال ہے تو صوبے کے باقی شہروں، قصبوں اور دیہات میں سکولوں کی حالتِ زار کیا ہو گی؟۔ یہ حالت چند دن یا چند ماہ میں نہیں ہوٸی۔ اس میں ہماری گزشتہ حکومتوں اور افسر شاہی کی شبانہ روز محنت شامل ہے جس نے ملکی اور غیرملکی این جی اوز اور غیرملکی اداروں سے بھاری ڈونیشنز لے کر سرکاری تعلیمی اداروں کو تباہی کی طرف دھکیلا ہے۔ خراب رزلٹ کا بہانہ بنا کر ہزاروں سکول پراٸیویٹاٸز کر کے این جی اوز کے حوالے کر دیٸے گٸے۔ معذرت کے ساتھ جناب وزیرِ اعلیٰ محسن نقوی نے اس تباہی میں اپنے جثے سے بھی زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ انہوں نے بڑے اور بہتر کارکردگی کے حامل سات سو سے زاٸد سرکاری سکولوں کو دانش اتھارٹی کے حوالے کرنے کے فیصلے پر تصدیقی مہر لگا دی ہے۔ ایک ہزار بہترین سرکاری سکولوں کو ایک امریکن این جی او مسلم ہینڈز کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دس ہزار مزید سرکاری سکولز ڈپٹی کمشنر صاحبان کی ماتحتی میں دینے کا فیصلہ بھی کیا جا چکا ہے جو یقیناً ان سکولوں کو ڈی پی ایس کی طرز پر چلاٸیں گے۔ والدین سے بھاری فیسیں وصول کریں گے اور یوں تعلیم کو عام آدمی کی دسترس سے دور کرکے صوبےبھر میں آنے والی نسل میں سے جاہلوں کی ایک فوج تیار ہو جاٸے گی۔ کیسا لطیفہ ہےکہ خراب کارکردگی کے حامل سکول بھی پراٸیویٹاٸز کٸے جا رہے ہیں اور اعلیٰ کارکردگی کےحامل سکولوں کو بھی یہی سزا دی جا رہی ہے۔ ایک اور عجیب فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ پراٸیویٹ تعلیمی اداروں کی کارکردگی جانچنے کا میکنزم بنایا جا رہا ہے اور خراب پرفارمنس پر ان کی رجسٹریشن منسوخ کر کے انہیں بند کرنے کا پلان بنایا گیا ہے۔ جانے تعلیمی میدان میں ہی ایسا رویہ کیوں اختیار کیا جا رہا ہے۔ باقی محکموں کے لٸے اس طرح کا سلوک کیوں روا نہیں رکھا جاتا۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ڈکیتی ہونے پر تھانہ بند کر کے عملے کو گھر بھیج دیا گیا ہو؟ کیا کبھی بجلی چوری پر لاٸن مین کی پکڑ ہوٸی ہے؟ بازار میں ملاوٹ شدہ اشیا ٕ ملنے پر آج تک کسی فوڈ انسپکٹر کو نوکری سے برخاست نہیں کیا گیا۔ جعلی ادویات دھڑلے سے بک رہی ہیں مگر ڈرگ انسپکٹرز کو پوچھنے والا کوٸی نہیں۔ اگر اساتذہ خراب کارکردگی پر مجرم گردانے جاتے ہیں تو کیا درج بالا سرکاری ملازمین جرم کےاس پیمانے پرپورا نہیں اترتے؟اپنے شہریوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جناب وزیرِ اعلیٰ! تعلیمی زبوں حالی کا حل سرکاری تعلیمی اداروں کو پراٸیویٹاٸز کرنا نہیں ہے۔ اس طرح تو تعلیم عوام کی پہنچ سے دور ہو جاٸے گی۔ اس مسٸلے کا حقیقی حل یہ ہے کہ استاد کو استاد ہی رہنے دیا جاٸے۔ اسے ”ریلو کٹا“ نہ بنایا جاٸے۔ مردم شماری، رمضان بازاروں، الیکشن کے انعقاد اور دیگر مواقع پر اساتذہ کو سکولوں سے دور نہ کیا جاٸے۔ اس وقت پنجاب میں اساتذہ کی 450545 منظور شدہ آسامیاں ہیں۔ جن میں سے 112035 آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ انہیں فوری طور پر پُر کیا جاٸے۔ ہر سال طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی بڑھتی ہوٸی تعداد کے پیشِ نظر مزید آسامیاں منظور کی جاٸیں۔ وزیرِ اعلیٰ ارویند کجریوال نے اپنے صوبہ دہلی میں سرکاری سکولوں کو اتنا اعلیٰ معیار دے دیا ہے کہ اس سال دو لاکھ سے زاٸد طلبہ پراٸیویٹ سکولوں کو چھوڑ کر سرکاری سکولوں میں داخل ہو گٸے ہیں۔ جناب محسن نقوی کے پاس تاریخ میں امر ہونے کا سنہری موقع ہے۔ قبل ازیں نگران وزیرِ اعظم معین قریشی کےدورِ حکومت میں اساتذہ کی بھرتیاں ہو چکی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی اجازت سے صوبہ پنجاب میں تمام خالی آسامیوں پر اساتذہ کی بھرتیاں کر کے وزیرِ اعلیٰ محسن نقوی اپنے صوبے کو تعلیمی پسماندگی سے نکال سکتے ہیں۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل