97

وکیل/تحریر/عتیق ادریس بٹگرامی

عتیق ادریس بٹ گرامی

پاکستان میں کئی اقسام کے “وکیل” وافر مقدار میں پائے جاتےہیں، نیز پائے جانے کے ساتھ ساتھ”پالے”بھی جاتے ہیں،اور موقع محل کی مناسبت سے تعلق رکھنے والے”وکیل” کی “تشکیل ” موکل کی ضرورت بلکہ مبنی بر “توکل”ہوتی ہیں،
ذیل میں چند “پاپولر “قسم کی وکلاء کا “تذکرہ خیر”
بہ “امید خیر” ہی کرنا چاہتے ہیں۔۔۔
نمبر ایک: #مفت وکیل۔
وکلاء کے اس قبیل سے تعلق رکھنے والے “جہلاء”آپ کو گلی گلی، قریہ قریہ ” تھوک ” کے حساب سے ملیں گے، غمی خوشی کی تقاریب ان کی پسندیدہ “جائے آزمائش ” بلکہ کبھی کبھی “ود فرمائش “ہوتی ہیں،جہاں یہ خوب کسی کے حق میں اور کسی کے “ناحق” دلائل کا انبار لگاتے ہیں ،”دلائل “کیا بلکہ بالترتیب بروزن “شمائل ” و “رزائل”کا پر چار بہ حالت “بے ہوش و حواس”کیا جاتا ہے، کسی کا کیا اپنا ہی “ستیا ناس”کیا جاتا ہے۔
وکیلوں کی اس قسم سے لوگ”دورو سلاما”کے فارمولے پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نمبر:دو#فرمائشی وکیل۔
وکیلوں کی اس قسم کی “تشکیل ” فرمائشی طور پر کی جاتی ہے ،جائے تشکیل پر یہ صرف وکیل نہیں بلکہ “مدعی سست گواہ چست” کا عملی نمونہ دکھائی دیتے ہیں ،مزے کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے وکلاء آج آپ کے تو کل میرے ۔۔۔کیونکہ ان کی “آزمائش “بقدر” فرمائش”ہی ہوتی ہے ،اس قسم کے وکلاء کا دیدار صرف آپ گھر بیٹھے بیٹھے روز کر سکتے ہیں بس “ریمورٹ ” اٹھائیں اور ان کی نئی “پروموٹ ” دیکھیں اور دیکھتے ہی جائیں ۔
نمبر :تین #آزمائشی وکیل،
یہ شاید سب سے “پرخطر”راہ کے “راہی”بلکہ “راوی”ہوتے ہیں ،کیونکہ “راوی”کے ساتھ ساتھ یہ اپنے موکل کے “داعی”اور “سپاہی”بھی ہوتے ہیں۔
مگر ان کی تقرری محض “آزمائش “ہی ہوتی ہے اگر “ترجمان “ٹھیک ہو تو “آزمائش “کے بعد “آسائش “کا فرمان جاری ہوتا ہے بصورت دیگر “ستائش”کے ساتھ رخصت کرنا ہی آخری حل سمجھا جاتا ہے۔
اس قسم کے وکیل صاحبان “صاحبان “کے ارد گرد ہی دیکھے دکھائے جاتے ہیں۔
نمبر :چار#سازشی وکیل۔
یہ “سوشل میڈیا “پر موجود سر گرم “وکلاء “کا ٹولہ ہے ،جن سے خیر کی توقع عبث ہے ،یہ “سوشلائز”ہونے کے لئے ایمان ،اعمال اور اقوال تک “کمرشلائز”کرنے سے نہیں ہچکچاتے ۔ان کے نزدیک کسی کو ہیرو یا زیرو کرنا بس “نیٹ” کے مرہون منت پے،اس قسم کے “نالائق”کی خوشی صرف “لائک” ہوتی ہے جبکہ “کمنٹس” انکی “دانشوری”پر مہر اور “شئیر ” کرنا تو ان کا “شیر “بننا ہوتا ہے۔
ایک اور قسم “وکلاء “کی جسے میں کوئی نام دینے سے “قاصر “ہوں ،وہ بھی ان “مفت وکلاء “سے کسی قدر مماثلت رکھتے ہیں مگر مجھے حیرانی بس یہ ہے کہ وہ بہ یک وقت میاں صاحب، عاصمہ جہانگیر جیسی مخلوق، پارلیمنٹ اور جمہوری غنڈوں کے “پر جوش”وکالت کرتے نظر آتے ہیں،جبکہ ملکی عدلیہ ،آرمی، اور اپنے ملکی ایجنسیز کی “کٹر” مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں