تحریر/مولانا ڈاکٹر محمد جہان یعقوب
ائیر مارشل اصغر خان اور ائیر مارشل نور خان جیسے قابل فخرسپوتوں اور کمانڈروں کی جنگی حکمت عملی اور فوجی ضرورتوں کے پیش نظر تجویز کردہ نصاب کے مطابق پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف ہوا باز گھوڑوں کو تیار کر رکھا تھا،جیسا کہ مسلمانوں کو اپنے دشمن کے خلاف تیاررہنے کا حکم ہے۔ یہ ہمارے ہوا باز7ستمبر کو اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دشمن پر جھپٹ پڑے۔ایک طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کومار گرایا تو دوسری طرف سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علاؤالد ین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کر دیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں ۔پاکستان کے غازی اور مجاہد ہوا بازوں نے ہندوستان کے جنگی ہوائی اڈوں کونقصان پہنچایا ۔
سترہ روز جنگ کے دوران پاکستان کے جرأت مند ہوابازوں نے35 طیاروں کو دو بدو مقابلے میں اور 43 کو زمین پر ہی تباہ کر دیا تھا۔ 32 طیاروں کو طیارہ شکن توپوں نے مار گرایا۔ بھارت کے مجموعی طور پر 110 طیارے تباہ کر دیے گئے۔ اس کے علاوہ پاک فضائیہ نے دشمن کے 149 ٹینک،200بڑی گاڑیاں اور 20 بڑی توپیں تباہ کر دیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے صرف 19 طیارے تباہ ہوئے۔ پاک فضائیہ کے ان عظیم کارناموں پر عالمی حلقوں کی طرف سے حیرت و استعجاب کا اظہار کیا گیا۔
پاک بحریہ کی بہادری
جنگ ستمبر میں پاک بحریہ کو سمندری جنگ کے معرکوں میں جو برتری حاصل رہی، ان میں’ معرکہ دوارکا ‘قابلِ ذکر ہے، یہ معرکہ پاک بحریہ کی تاریخ کا یادگار حصہ بن چکا ہے۔’ دوارکا‘ کی تباہی کا بیرونی اخبارات میں بڑا چرچا ہوا۔ اس کارروائی نے دشمن پر یہ ظاہر کر دیا کہ سمندروں میں اس کو من مانی نہیں کرنے دی جائے گی۔ یہ کارنامہ دراصل اُن لوگوں کے لیے بھی قابل فخر ہے، جو پاکستان نیوی کے جہازوں کو سنبھالے ہوئے تھے اور اس میں ان لوگوں کا بھی حصہ تھا جو ساحل پر بیٹھے ان جہازوں کو سمندروں میں خدمات جاری رکھنے کے قابل بنانے کاموں میں مصروف تھے۔ غرضیکہ نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی دیگر دفاعی اداروں کی طرح قابل فخر رہیں۔ اعلانِ جنگ ہونے کے ساتھ بحری یونٹس کو متحرک و فنکشنل کر کے اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ کیا گیا۔ کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی پر پٹرولنگ شروع کرائی گئی۔پاکستان کے بحری،تجارتی روٹس کی حفاظت بھی پاکستان بحریہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس لیے سمندری تجارت کو بحال رکھنے کے لیے گہرے سمندروں میں بھی یونٹس بھجوائے گئے۔ پوری جنگ کے دورن پاکستان کا سامان تجارت لانے لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر تک نہ آنے دیا۔ پاکستان نیوی کی کامیابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کے تجارتی جہازسرسوتیاوردیگر تو کتنے عرصہ تک پاکستان میں زیر حراست وحفاظت کراچی کی بندرگاہ میں رہے۔ 7ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔پاکستان نیوی کا بحری بیڑا، جس میں پاکستان کی واحد آبدوزپی این ایس غازی بھی شامل تھی، ہندوستان کے ساحلی مستقر’دوارکا‘پرحملہ کے لیے روانہ ہوا۔اس قلعے پر نصب ریڈار ہمارے پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک رکاوٹ تھا۔ مذکورہ فلیٹ صرف 20منٹ تک اس’ دوار کا‘ پر حملہ آور رہا۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوار کا تباہ ہو چکا تھا۔ پی این ایس غازی کا خوف ہندوستان کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ ہندوستانی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرأت نہ کرسکا۔ ہندوستانی جہازتلوارکو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لیے بھیجا گیا مگر وہ بھیغازی کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔
کِس کی ہمت ہے ہماری پرواز میں لائے کمی
ہم پروازوں سے نہیں حوصلوں سے اڑا کرتے ہیں