111

پاکستان ٹرانس جینڈر ایکٹ/تحریر/شہنیلہ بیلگم والا

تحریر/شہنیلہ بیلگم والا

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو اپنی بہن سے شادی کرنی تھی. یہ وہ فعل ہے جس کی اجازت کسی بھی مذہب میں نہیں. بادشاہ نے اپنے مصاحبوں سے مشورہ کیا. ایک شیطان صفت مصاحب نے مشورہ دیا کہ کوئی بھی بڑا دھماکہ فوری طور پر نہیں کیا جاتا. پہلے اس کے لیے زمین نرم کی جاتی ہے. عوام کو پہلے ہلکی پھلکی بے غیرتی کا عادی بنایا جاتا ہے. پھر جب رب کے قانون کے صریحاً خلاف ورزی کی جاتی ہے تو عوامی ردعمل انتہائی معمولی ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو ہوتا بھی نہیں.
اس کی مثال آج کل کے دور میں یہ ہے کہ پہلے میڈیا کے زریعے ہمیں مزاح کے نام پہ ایک مرد کو ساڑھی پہنا کر سج سنوار کر بٹھایا گیا ( بیگم نوازش علی). پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ ہر دوسرے ڈرامے میں ایک مرد لہرا کر بل کھاتا ہوا نظر آیا. عوام نے اسے مزاح کا ایک انداز سمجھا. اب اگر روزمرہ کی زندگی میں بھی کوئی ایسا کرتا نظر آتا ہے تو ہم اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہیں. پھر پچھلے دنوں ایک مرد جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے ( ڈاکٹر )، لیکن کھلے عام سیکس چینج کو اپنا حق مانتا ہے. خود کو عورت کی طرح پیش کرتا ہے اور ہم جنس پرست ہونے پہ فخر کرتا ہے، اسے ایک اسکول میں بطور رول ماڈل مدعو کیا گیا. جس پہ کچھ والدین نے اعتراض کیا. باقی والدین اس کی انگریزی سے مرعوب ہوتے رہے.
اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام میں ایسے لوگوں کا کیا مقام ہے. یہ مکمل مرد اور عورت اپنی جنس سے مطمئن نہیں، اسی لیے وہ خواجہ سراؤں کی آڑ لے کر پاکستان میں ایک ایسا قانون پاس کروانا چاہتے ہیں جس سے ان کو اپنا گھناؤنا فعل کرنے کی مکمل آزادی مل جائے.
کم علمی کے باعث بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اسلام میں خواجہ سراؤں کے وہی حقوق ہیں جو ایک مرد یا عورت کے ہیں. یہاں تک کہ وراثت میں بھی اگر ایک خواجہ سرا عورت کے نزدیک تر ہے تو ترکے میں عورت کے برابر اور اگر ایک مرد کے نزدیک تر ہے تو مرد کے برابر حصہ ملے گا. یہ باتیں ہم سے چھپائی جاتی ہیں. انسانیت کے نام پہ اپنی فحاشی کی آزادی درکار ہے. یہ قوم لوط کا فعل ہے جس پہ اللہ کا غضب ایسے بھڑکا تھا کہ توبہ کرنے کے لیے تین دن کا وقت بھی نہیں دیا گیا جو اس سے پہلے تمام گمراہ قوموں کو دیا گیا تھا.
اکتوبر میں اس بل پر پارلیمانی کمیٹی فیصلہ کرے گی. ہم سب کی زمہ داری ہے کہ ہم بھرپور احتجاج کر کے اس بل کو رکوائیں. ہمیں یہ کام ہر قسم کی سیاسی وابستگی سے اٹھ کر کرنا ہے. یاد رہے کہ اللہ کا عذاب اور غضب صرف ان پہ نہیں آتا جو اس فعل میں ملوث ہوتے ہیں بلکہ ان پہ بھی آتا ہے جو اس کو قبیح فعل سمجھتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرتے ہیں.
اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

اس صریحاً گمراہی کے خلاف اپنی بساط کے مطابق احتجاج کرتی ہوئی
شہنیلہ بیلگم والا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں