
تحریر/مولانا ڈاکٹر محمد جہان یعقوب
اس جنگ کا پس منظر یہ تھا کہ 1962 ء میں بھارت نے چین کو دعوتِ مبارزت دی، مگر منہ کی کھائی۔ چین از خود جنگ بند نہ کر دیتا تو بھارت صدیوں تک ذلت کے داغ دھو نہ سکتا۔ 1965 ء میں بھارت نے’ رَن کچھ‘ کے محاذ پر پاکستان سے پنجہ آزمائی کی، مگراسے ذلت اٹھانا پڑی، جس پر بھارتی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اب ہم مرضی کا محاذ منتخب کر کے پاکستان کو مزا چکھائیں گے۔ چنانچہ بھارت نے 6ستمبر کو اچانک لاہور کے تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ دشمن کامنصوبہ یہ تھا کہ وسط میں لاہور پر حملے کے ساتھ شمال میں جسٹر کے مقام پر اور جنوب میں قصور کے مقام پر محاذ کھول دیے جائیں۔ میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں پچیسواں ڈویژن ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے آگے بڑھ رہا تھاکہ ستلج رینجرز کے مٹھی بھر جوانوں نے ان کا راستہ روک لیااور تمام جوان آخری گولی اور آخری سانس تک لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے،ان میں سے نہ کوئی پیچھے ہٹااور نہ ہی کسی نے ہتھیار ڈالے،یہ انہی کی جرأت وبہادری اور جاں نثاری وجاں سپاری کا نتیجہ تھا کہ بھارتی فوج، جسے لاہور کے مضافات میں ناشتہ کرنا تھا،دن کی روشنی طلوع ہونے تک بمشکل تین میل آگے بڑھ سکی۔
سیالکوٹ کامحاذ
لاہور پر حملے کے چوبیس گھنٹے بعد بھارتی فوج نے تقریبا ًپانچ سو ٹینک اور پچاس ہزار فوج کے ساتھ سیالکوٹ پر اچانک حملہ کر دیا۔ پاکستان کی طرف سے صرف سوا سو ٹینک اور تقریبا ًنو ہزار جوان میدان میں آئے۔ بھارتی منصوبہ تھا کہ پہلے جسٹر پھر سچیت گڑھ پر حملہ کیا جائے۔ ان مقامات پر پاکستانی فوج الجھ جائے گی تو حملہ آور فوج درمیان سے گزر کر پسرور سے ہوتی ہوئی جی ٹی روڈ پر پہنچ جائے گی۔ جسٹر کے مقام پر پاک فوج نے صرف دو بٹالینوں کے ساتھ حملہ آور فوج کا نہایت دلیری سے مقابلہ کیا۔ اُدھر سچیت گڑھ میں بریگیڈیر ایس ایم حسین نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ سیالکوٹ کے علاقے میں زبر دست جوابی کارروائی میں پاکستانی فوج نے دشمن کے 25 ٹینک تباہ کر دیے، 5 فیلڈ گنیں قبضے میں لے کر بہت سارے فوجی قیدی بھی بنائے ۔ پاک فوج نے جنگ کا پانسا پلٹتے ہوئے دشمن کے علاقے کے کافی اندر جا کر کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔سیالکوٹ محاذپر سخت لڑائی جاری تھی، جس میں دشمن کے 36 ٹینک تباہ کر دیے گئے۔ پاکستان کی بہادر فوج نے خوں ریز جنگ کے بعد دشمن کے ٹینکوں کے حملے کو پسپا کر دیا اور دشمن کی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اس کے مزید 45 ٹینک تباہ ہو گئے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی جنگ کا بڑا میدان:
7 اور 8 ستمبر کی درمیانی رات بھارتی فوج نے چونڈہ کے محاذ پر حملہ کر دیا۔ اس محاذ پر پیدل فوج کی دو بٹالین اور ایک آرمڈ رجمنٹ دشمن کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ جنگ کا میدان گرم ہوا تو پاکستان کے صرف تیس ٹینکوں نے بھارت کے ایک سو دیو ہیکل ٹینکوں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔دشمن کا پروگرام 24 گھنٹے کے اندر چونڈہ سے آگے بڑھ جانا تھا مگر اب 72 گھنٹے بعد بھی وہ ایک انچ آگے نہ بڑھ سکا تھا، چنانچہ وہ مزید طاقت لے کر میدان میں اتر آیا اور اس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی جنگ کا دوسرا بڑا میدان گرم ہوا۔ گولہ بارود سے فضا دھواںدھواں ہورہی تھی۔ پاکستانی ہیڈ کوارٹر نے حکم دیا تھا کہ جب تک آخری جوان زندہ اور ایک بھی گولہ موجود ہے ،چونڈہ کا دفاع کیا جائے،یوں پاکستانی نوجوانوں میں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کی فراوانی تھی تودوسری طرف بھارتی جرنیلوں کے پاس تازہ دم فوج، ٹینکوں اور گولہ بارود کی کمی نہ تھی،وہ سترہ ستمبر کو تازہ دم فوج میدان میں لے آئے اور چونڈہ کے مغرب میں ریلوے لائن سے سڑک کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ،جہاں ہمارے افسر اور جوان گھات لگائے بیٹھے تھے۔ ٹینکوں کے انجن بند کر دیے گئے تھے، تاکہ دشمن کو ان کی موجودگی کا علم نہ ہو سکے۔ جب دشمن کی پوری جمعیت اپنی کمین گاہ سے نکل آئی تو پاک فوج کے جاں بازوں نے فائرکھول دیا،یہ حملہ ایسا اچانک تھا کہ دشمن کے صرف 105 سپاہی زندہ بچے، باقی سب کھیت ہوگئے،زندہ بچ جانے والوں کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔
باٹا پورکامحاذ:
اس محاذ پر پاک فوج کے زیر کمان قوت صرف سات بٹالینوں پر مشتمل تھی اور محاذ پانچ میل لمبا تھا۔ بھارت کے لیے لاہور میں داخل ہونے کے لیے باٹا پورکے پل پر قبضہ ضروری تھا ،چنانچہ اس مقصد سے ایک پورے بھارتی بریگیڈ اور ایک ٹینک رجمنٹ نے دوسرا حملہ کیا۔ لاہور کو بھارتی یلغار سے بچانے کے لیے نہر’ بی آر بی‘ کا پل تباہ کرنا بہت ضروری تھا،بھارت کے لیے ایسا کرنا دن کی روشنی میں نا ممکن تھا،چنانچہ دشمن نے پل کے دائیں بائیں گولوں کی بوچھاڑ کر دی۔ دشمن کو جواب دینے کے لیے پل تک دھماکا خیز بارود لے جانے کی کوشش میں ایک جوان شہید ہو گیا، اس کے بعد چند رضاکاروں نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود ایک گڑھے میں اتارا، اس پر ریت رکھ کر آگ لگانے والی تاروں کو جوڑا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس آ گئے۔ ان کا اس طرح صحیح سلامت واپس آنا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ یوں لاہور میں داخل ہونے کی بھارتی امیدیں منقطع ہو گئیں۔بھارت نے کوشش تو جاری رکھی اور سترہ دنوں کے دوران بھارتی فوج نے تیرہ بڑے حملے کیے، مگر ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔
بھینی کا محاذ:
باٹا پور سے شکست کھانے کے بعد بھارت نے بھینی کے محاذ پر دبا ؤسخت کر دیا۔ یہ مقام باٹا پور سے سات میل شمال کی طرف واقع ہے۔ دشمن کا ارادہ تھا کہ وہ لاہور شہر کو ایک طرف چھوڑ کر بھینی کے راستے’ محمود بوٹی پر بند‘ پر پہنچے اور وہاں سے راوی کے پل پر قبضہ کر کے لاہور کو راولپنڈی سے کاٹ دے، چنانچہ یہاں دشمن نے انیس حملے کیے اور تقریبا ًڈیرھ ہزار گولے برسائے، مگر ہر حملے میں منہ کی کھا کر پسپا ہو گیا۔
برکی سیکٹرکامحاذ:
برکی سیکٹر پر دشمن نے ایک ڈویژن اور دو بریگیڈوں کی مدد سے حملہ کیا،جواب میں پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی اس پر ٹوٹ پڑی اور پورے نو گھنٹے تک دشمن کی یلغار روکے رکھی۔ دشمن نے دوبارہ صف بندی کرنے کے بعد حملہ کیا تو پاکستان کی ٹینک شکن رائفلوں اور توپ خانوں کے گولوں نے دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ 10 ستمبر تک دشمن نے چھ حملے کیے جنہیں پسپا کر دیا گیا۔ 10 اور 11 ستمبر کی درمیانی شب دشمن نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ کیا۔