72

پیار کی طاقت/تحریر/عبدالروف ملک (کمالیہ)

پیارے بچو۔۔۔۔۔! پرانے زمانے کی بات ہے ایک بادشاہ تھا جو بہت طاقتور اور عوام کا خیال رکھنے والا تھا لیکن اس میں ایک بری بات یہ تھی کہ اس نے ایک خونخوار شیر پال رکھا تھا جب بھی اسکے سامنے کوئی غلطی کرتا تو وہ اسکو سزا کے طور پہ اس شیر کے پنجرے میں ڈال دیتا اور شیر چند لمحوں میں ہی اس قیدی کو چیرپھاڑ کر کھا جاتا۔ اس بادشاہ کا ایک وزیر بہت ذہین تھا جس سے بادشاہ بہت خوش تھا کیونکہ وہ بادشاہ کو ہمیشہ اچھے مشورے دیا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے ایک دفعہ بادشاہ اپنے اس وزیر سے ناراض ہوگیا اور اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وزیر کو شیر کے پنجرے میں ڈال دیا جائے۔ وزیر نے بادشاہ سے معافی کی درخواست کی لیکن بادشاہ کا غصہ ختم نہ ہوا تو وزیر نے بادشاہ سے منت سماجت کی کہ اس نے بادشاہ کہ خدمت میں جو پندرہ سال گزارے ہیں اس کے عوض میں اسے پندرہ دن کی مہلت دی جائے اس کے بعد بےشک مجھے شیر کے پنجرے میں ڈال دیا جائے۔ بادشاہ نے وزیر کی یہ بات مان لی اور اسے پندرہ دن کی مہلت دے دی۔ وزیر وہاں سے سیدھا شیر کے رکھوالے غلام کے پاس پہنچا اور اس سے کہا کہ آج سے شیر کی رکھوالی اور اسکے کھانے پینے کا انتظام وہ خود کرے گا۔ غلام وزیر کی بات مان گیا۔ ان پندرہ دنوں میں وزیر نے شیر کی خدمت میں دن رات ایک کردیے اسکو نہلاتا اسکے کھانے پینے کا خیال رکھتا پیار سے اسکے بالوں میں گدگدی کرتا اور اسکی کمر پہ ہاتھ پھیرتا بالآخر شیر بھی وزیر سے مانوس ہوگیا۔ پندرہ دن پلک جھپکتے گزر گئے اور وہ دن آگیا جب وزیر کو شیر کے پنجرے میں ڈالا جانا تھا۔ شیر کے پنجرے کو ایک بڑے میدان میں لایا گیا سامنے بادشاہ تخت پر براجمان تھا اور پورا میدان لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بادشاہ نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو اسکے سپاہی وزیر کو شیر کے پنجرے کے پاس لائے اور پنجرے کی کھڑکی کھول کر وزیر کو اس میں پھینک دیا۔ پورے مجمع کی اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب لوگوں نے دیکھا کہ جو شیر اپنے شکار کو ایک لمحے میں چیر پھاڑ دیا کرتا تھا وہ خاموشی سے وزیر کے قدموں میں لیٹ گیا اور وزیر بھی پیار سے شیر کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا۔ یہ سب دیکھ کر بادشاہ بہت حیران ہوا اور وزیر کو باہر نکلنے کا حکم دیا۔ وزیر باہر آیا اور اس نے بادشاہ کو سارا ماجرا سنادیا کہ اس نے صرف پندرہ دن اس شیر کی خدمت کی اور یہ میرے ان پندرہ دنوں کے احسانات نہیں بھولا جبکہ میں نے پندرہ سال آپ کی خدمت کی ہے اور آپ کے دل میں میرے لیے ذرا بھی رحم نہیں آیا بادشاہ کو دل ہی دل میں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے وزیر کی سزا معاف کردی۔ پیارے بچو۔۔۔۔۔۔۔!!اس کہانی سے ہمیں دو سبق ملتے ہیں پہلا یہ کہ “اگر کوئی غلطی کرے تو اسکو فوراََ معاف کردینا چاہیے”دوسرا یہ کہ”جو کام طاقت سے نہیں ہوسکتا وہ پیار اور محبت سے کیا جاسکتا ہے”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں