آپ کسی بھی تعلیمی ادارے میں سروے کرلیں اور بچوں سے سے ان کے مستقبل کے بارے میں سوال کریں کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیا بننا یا کیا کرنا چاہیں گے تو یقین جانیے کہ 95فیصد بچوں کا جواب جاب ہوگا یا پھر ڈاکٹر, وکیل, فوجی یا پھر پولیس میں بھرتی ہونے کا ارادہ ظاہر کریں گے اور اکثر بچے یہ سب اپنے والدین کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کررہے ہوں گے۔جاب میں بھی سرکاری جاب کرنے کی خواہش والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔ اور اس سب کے بعد شاید کہ کوئی ایک بچہ ایسا ہوگا جو اپنا بزنس یا پھر جن کا خاندانی کاروبار کی طرف آنے کی بات کرے گا, وگرنہ آج کے نوجوان والد کے کاروبار میں بھی رغبت نہیں رکھتے, بلکہ وہ کسی اور کی نوکری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہوتے ہیں اور اگر ان سے اپنے بزنس کو آگے بڑھانے کی بات کی جائے ےو صرف ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اتنی اعلی تعلیم حاصل کی اور اب اب دوکان پر بیٹھ گیا ہے اگر یہ سب ہی کرنا تھا پھر شروع ہی سے اس طرف لگا دیتے اتنے سال بھی ضائع کیے اور اورپیسے بھی۔
اس ساری ذہنیت کے پیچھے ہمارا ہمارانظام تعلیم ہے اور ان تعلیمی اداروں کا بڑا کردار ہے جو بھاری بھرکم فیسیں لیتے ہیں اورتعلیم ہی نوکری کی دیتے ہیں ان کو خواب ہی یہی دیکھائے جاتے ہیں اور کامیابی کی بنیاد کسی بھی بھی سرکاری ادارے میں جاب کا مل جانا ہوتی ہے,یہی یہی وجہ ہے کہ ہماری آج کی نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد صرف سرکاری نوکری کی کوشش میں اپنے کئی قیمتی سال ضائع کردیتے ہیں اور نتائج کے انتظار میں اپنی صلاحیتوں کو زنگ لگا رہے ہوتے ہیں اور پھر اور اورایج ہوجانے کے بعد کسی بھی بھی پرائیویٹ ادارے میں کام کی تلاش شروع کردیتے ہیں ۔ اہلیت, قابلیت اور صلاحیت ہونے کے باوجود اپنے معیار سے بہت کم پر سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور اپنے ان ان پڑھ باس کی جھڑکوں کو سنتے زندگی زندگی گذار دیتے دیتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی بھی وقت باس کی ناراضگی کی وجہ سے جاب سے نکالے جانے کی کیتلوار بھی لٹک رہی ہوتی ہے اور یہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہوتا ہے کہ ایک ہی جگہ پچاس سال کام کرنے اور اوراپنی تما صلاحیتیں اور قوت لگانے کے بعد بھی ملازم ہی رہے گا جو کسی بھی وقت وقتباس کے غصہ کا تر نوالہ بن سکتا ہے۔
اس لیے آج کے نوجوانوں کو یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ ایسی صورت حال میں جب پاکستان میں آے روز بےروزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے ,مہنگائی کی شرح میں ہوشروبا اضافے کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں ہمیں تجارت کی طرف آنا چاہیے اور یہ بات ذہن نشین ہو کہ اللہ تبارک و تعالی نے برکت کے دس حصوں میں سے نوں حصے تجارت میں رکھے ہیں اور جناب خاتم النبیین النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے 12ملکوں کا سفر تجارت کی غرض سے کیا,حضرت سفیان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ پورے عرب کے سب سے بڑے تاجر تاجر تھے , اسی اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک بڑی تعداد تجارت سے وابستہ تھی اور اسی کے ذریعہ دین اسلام کی بھی اشاعت کرتے تھے پہلے تین خلفائے راشدین بھی تجارت کیا کرتے تھے , اس کے جہاں دنیاوی فائدے ہیں وہاں اخروی کامیابی کی کی ضمانت بھی , کیونکہ امانت دار اور دیانت دار تاجر کا قیامت کے روز انجام انبیاء,صدیقین , شہداء شہداءاور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
اس ایسے سخت حالات میں تجارت کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اپنی منزل کو ایک نئی جہت دینی چاہیے اور نوجوانوں کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ضائع ہونے سے بچنے میں اپنا کردار ادا کریں اور پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں اور قوم و ملت کا مستقبل محفوظ بنائیں۔
تحریر :محمد عزیر گل