17 رمضان المبارک کی تاریخ ایک ایسی تلخ حقیقت پر مبنی ہے کہ اس دن صدیقہ کائنات ،طیبہ، طاہرہ مومنوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ دارفنا سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئیں۔
آپ کا نام: عائشہ۔لقب :صدیقہ ۔کنیت :ام عبداللہ۔والد کا نام ابو بکر ۔ والدہ کا نام ام رومان۔
قریش کے ایک قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں ۔
عرب میں کنیت عزت اور شرافت کا نشان ہے۔ حضرت عائشہ کی کوئی اولاد نہ تھی ،اس لیے ان کی کوئی کنیت نہیں تھی ۔
ایک مرتبہ حسرت سے عرض کرنے لگیں کہ یا رسول اللہ !عورتیں تو اپنی سابقہ اولادوں پر کنیت رکھ لیتی ہیں میری تو کوئی اولاد نہیں ہے ،میں کس پر رکھوں ،تو پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھانجے پر رکھ لو ،تو اس طرح عبداللہ پر رکھ لی۔
ولادت با سعادت
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نبوت کے پانچویں سال پیدا ہوئیں ۔پیارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اپنی محبوب زوجہ کو کبھی حمیرا بلاتے تھے کبھی صدیقہ کبھی بنت ابوبکر ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ سے نکاح اپنے دوست غار یار ابوبکر صدیق کے احترام میں کیا۔ سیدہ عائشہ دو جہاں کے سردار کی سب سے کم عمر زوجہ تھیں ۔سب ازواج میں یہ شرف حضرت عائشہ صدیقہ کو حاصل تھا کہ پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بہت محبت کرتے تھے ۔جہاں سے اماں عائشہ پیالے کو ہونٹ لگاتی وہیں سے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہونٹ لگاتے تھے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے ۔حضرت عائشہ پانی پی رہی تھیں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعائشہ! میرے لیے بھی بچا دینا تو حضرت عائشہ نے بچا دیا، میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک لب اسی جگہ پر لگا دئیے جہاں سے حضرت عائشہ نے پیا تھا۔
شاعر منظر کشی اس طرح کرتا ہے ۔
لگے جو پیالے پہ ہونٹ تیرے اسی جگہ سے نبی نے پیا
ہے پیار کتنا نبی کو تجھ سے حمیرا تجھ کو کہاہے اکثر
ایک دفعہ ایک سفر میں حضرت عائشہ کی سواری کا اونٹ بدک گیا اور ان کو لے کر ایک طرف کو بھاگا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر بے قرار ہوئے کہ بے اختیار زبان مبارک سے نکل گیا،واعروساہ
ہائے !میری دلہن(مسند احمد)
سیدہ عائشہ کا بلند مقام
ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لوگوں میں سب سے زیادہ پیارا کون ہے ؟
دو جہاں کے سردار نے جواب دیا کہ عائشہ ۔
عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول !مردوں کی نسبت سوال ہے، فرمایا کہ عائشہ کے والد صدیق سے
جناب رسول اللہ اپنی پیاری شہزادی فاطمة الزہرہ سے فرمانے لگے کہ فاطمہ آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے والد کو عائشہ سے بہت محبت ہے۔
حضرت عائشہ کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے (ثرید)کو تمام کھانوں پر ۔ثرید عرب کا پسندیدہ کھانا ہے۔
جب صدیقہ کائنات خوش ہوتیں تو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ خوش ہوتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا ایک عالم یہ بھی دیکھیے: ایک مرتبہ گھر تشریف لائے فرمانے لگے حمیرا ۔! تم مجھے مکھن اور چھوہارے ملا کر کھانے سے زیادہ محبوب ہو ۔حضرت عائشہ فرمانے لگیں میرے سر تاج آپ مجھے مکھن اور شہد ملا کر کھانے سے بھی زیادہ پسند ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ سے یہ محبت بھرا انداز اس دور میں گھریلو ناچاکیوں نفرتوں کے ستون کو گرا کر محبت سے رہنے کا درس دیتا ہے ۔
ایک دفعہ عید کا دن تھا،حبشی عید کی خوشی میں نیزے ہلا ہلا کر پہلوانی کے کرتب دکھا رہے تھے۔حضرت عائشہ نے یہ تماشا دیکھنا چاہا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے اور وہ پیچھے کھڑی ہوگئیں اور جب تک وہ خود تھک کر نہ ہٹ گئیں ، آپ برابر اوٹ کیے کھڑے رہے ۔
ایک غزوہ میں حضرت عائشہ رفیق سفر تھیں ،تمام صحابہ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ جانے کا حکم دیا حضرت عائشہ سے فرمایا آ ؤ۔۔!دوڑیں۔
دیکھیں کون آگے نکل جاتا ہے،یہ دبلی پتلی تھیں آگے نکل گئیں۔کئی سال کے بعد اسی قسم کا ایک موقع پھر آیا ،حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اب میں بھاری ہوگئی تھی،اب کی باری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل گئے فرمایا :عائشہ ۔۔!یہ اس دن کا جواب ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
فرماتی ہیں کہ ایک شب میں بیدار ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا ان دنوں راتوں کو گھروں میں چراغ نہیں جلتے تھے۔ میں آپ کو ادھر ادھر ٹٹولنے لگی۔ آخر ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ملا،دیکھا تو آپ سر بسجود مناجات الٰہی میں مصروف ہیں۔
آفتاب رسالت کی کرن ،گلستان نبوت کی مہک باصدق و وفا کی دلکش تصویر ،جس کی شان میں آیات قرآنی نازل ہوئیں۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں حضرت عائشہ امتیاز و شرف کی لازوال دولت بخشی ۔پورا ایک رکوع سورةنور کا مکمل حضرت عائشہ کی شان میں نازل ہوا جب کفار نے تہمت لگائی تھی ۔
واقعہ افک اور برات عائشہ
غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر اسلامی لشکر جب آرام کرنے کی غرض سے رک گیا ،تو حضرت عائشہ حاجت کے لیے گئیں وہاں ان کا ہار گم ہوگیا۔وہ ان کو ڈھونڈنے میں لگ گئیں۔ ان کو دیر ہوگئی جب واپس آئیں تو لشکر روانہ ہوچکا تھا تو وہ اسی مقام پر ٹھہر گئیں۔ وہاں صفوان بن معطل آگئے اور انہوں نے حضرت عائشہ کو اپنے اونٹ پر بٹھاکر لشکر کے پاس پہنچا دیا ۔بعض لوگ بد گمانی کرنے لگے حضرت عائشہ کے کردار کشی کرنے لگے تو برات ِعائشہ پر قرآن نازل ہوا کہ آیات میں حضرت عائشہ کی پاکیزگی اور پاکدامنی پر گواہی تھی منافقوں کو منہ کی کھانی پڑی اور ذلت کا سامنا پڑا ۔
حضرت عائشہ کو تعلیمات نبوی پر عبور حاصل تھا صرف اتنا ہی نہیں بلکہ نبوت کی زبان سے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت ملی
شادی و رخصتی
ہجرت سے 3 سال قبل آپ سے شادی ہوئی 9 سال کی عمر میں رخصتی ہوئی ۔آپ کاحق مہر 500درہم تھا۔حضرت عائشہ کا بچپن پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گزرا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ کی سہیلیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔حضرت عائشہ کے علاہ کسی کنواری خاتون سے نکاح نہیں ہوا۔
حضرت عائشہ بہت چھوٹی تھیں جبرائیل امین علیہ السلام ان کی تصویر ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر لائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی اور کہا کہ یہ دنیا آخرت میں آپ کے ساتھ ساتھ ہیں ۔
علمی مقام و مرتبہ
امام ذہبی لکھتے ہیں حضرت عائشہ پوری امت کی عورتوں سے زیادہ عالمہ،حافظہ،فقیہہ تھیں ۔حضرت عائشہ بہت ذہین تھیں۔
احادیث اور روایات میں امتیازی اعزاز حاصل تھا صحابہ کرام حضرت عائشہ سے مسائل پوچھنے آتے تھے ۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کو کبھی ایسی مشکل پیش نہ آئی جس کے بارے میں ہم نے حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا اور ان سے اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہو۔حضرت عائشہ فتوی دینے کے اعتبار سے صحابہ سے بڑھ کر تھیں۔
دور نبوی میں کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے سیدہ عائشہ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو۔ حضرت عائشہ سے 2210احادیث مروی ہیں، 174 احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری اور مسلم میں ہیں حضرت عائشہ کو سب ازواج مطہرات میں کچھ منفرد خصوصیات حاصل تھیں ۔
1۔بہت کم عمر تھیں جب نکاح ہوا ۔
2 ۔کنواری تھیں۔
3 ۔آپ کے بستر پر وحی نازل ہوتی۔
4۔جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا ہوا تھا۔
5 ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حضرت عائشہ کی گود میں ہوئی۔
عروہ بن زبیر کا قول ہے حلال و حرام علم و شاعری ،رعب میں ماہر خاتون جنت سیدہ عائشہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا ۔
علم اور تقوی و سخاوت کے اعتبار سے چند مثالیں
حضرت عائشہ کے بھانجے عبداللہ بن زبیر نے ایک لاکھ 80 ہزار درہم ہدیہ کئے ۔آپ نے وہ شام تک تمام غرباء اور مساکین میں تقسیم کر دئیے ۔اس دن آپ روزے سے تھیں ۔خادمہ کہنے لگی آپ کچھ روک لیتی ،تاکہ ہم افطاری کا سامان کر سکتے ۔حضرت عائشہ فرمانے لگیں اگر تم مجھے یاد کروا دیتی تو میں روک لیتی۔
حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کو ستر ہزار درہم تقسیم کرتے دیکھا لیکن کپڑوں کو پیوند لگا کر پہنتی تھی کبھی نیا کپڑا نہیں پہنا۔خاتون اسلام کا یہ زہد وتقوی ہمارے لیے باعث مثل ہے ۔
وفات
سن56 ہجری میں ماہ رمضان میں بیمار ہوئیں۔18سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں۔56سال کی عمر میں وفات پائی ۔حضرت عائشہ کی وصیت تھی کہ ان کو جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔جنازہ حضرت ابو ہریرہ نے پڑھایا۔
17رمضان المبارک کو ام المومنین حضرت عائشہ، صدیقہ کائنات ،محبوبہ محبوب خدا، دار فنا سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئیں۔
