تبصرہ/ لبنیٰ مقبول

ادب پرور رخسانہ افضل صاحبہ بہت ہی پیاری اور دلنواز شخصیت کی مالک ہیں۔ ایک نثری نظموں کی کتاب “حرفِ دعا” اور ایک ناول “کدی آ مل سانول یار وے” کی مصنفہ ہیں۔ خوبصورت تخیل کے ساتھ ساتھ بہت ہی خوبصورت دل کی بھی مالک ہیں۔ حسین لفظوں کے موتی پرونے کے ساتھ ساتھ ساتھ فیس بُک اور حقیقی زندگی میں ہم نے تو انہیں محبتیں بانٹتے اور آسانیاں تقسیم کرتے ہوئے ہی مصروف عمل پایا۔ خصوصا گزشتہ دنوں سیلاب زدگان کی مدد کے سلسلے میں جس طرح وہ پیش پیش رہی ہیں اور ابھی بھی مستقل مزاجی کے ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے پرعزم ہیں اور باقی لوگوں کو بھی ترغیب دیتی رہتی ہیں وہ واقعی قابل ستائش ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ رخسانہ افضل صاحبہ نے باتوں، دعوؤں اور عمل کو ایک پیج پر لا کھڑا کیا اور ہم سب کے لیے رول ماڈل بن گئیں۔ آپ کی اس نیک نیتی پر اللہ آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے آمین۔
کچھ عرصہ قبل رخسانہ افضل صاحبہ کا ناول “کدی آ مل سانول یار وے” بذریعہ ڈاک موصول ہوا تھا۔ تخلیق کار دوستوں کی طرف سے جب بھی کوئی کتاب موصول ہوتی ہے تو کوشش ہوتی ہے کہ اس کا جلد مطالعہ کر لیا جائے اور اس کی رسیدِ وصولی اور مختصر تبصرہ ساتھ ہی وال پر لگا دیا جائے مگر گزشتہ دو ڈھائی مہینے مسلسل بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے دل بہت برا کیا ہوا تھا۔۔نہ کچھ لکھنے کا موڈ بن پا رہا تھا اور نہ ہی پڑھنے کا۔ پھر ایک دن ایسی ہی ایک اداس شام میں چائے پیتے ہوئے ہم نے رخسانہ افضل صاحبہ کا بھیجا ہوا ناول اٹھایا اور ورق گردانی کرنے لگے۔ دیدہ زیب سرورق والا یہ ناول کافی متاثر کن لگا۔ اندرونی صفحات میں کرداروں کے مابین ادا ہونے والے کچھ جملوں نے ہماری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ بس تو پھر کیا تھا، بہت سکون سے پورا ناول پڑھنا شروع کیا۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ ناول ختم ہونے تک ایک نشست میں پڑھنے والا سکون میسر بھی رہا ورنہ تو اب ایسی عیاشی کم کم ہی نصیب ہوتی ہے کہ مصروفیات کے ساتھ کوئی بھی کتاب ایک ہی نشست میں ختم کرنے کا موقع مل سکے۔ کافی عرصے بعد بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ برسوں بعد بہت سکون سے رومانوی ناول پڑھنے کا حظ اٹھایا۔ اچھی تبدیلی محسوس ہوئی اور بوجھل طبیعت بھی کافی حد تک بحال ہوئی۔ ناول پڑھتے ہوئے وہ وقت بار بار یاد آتا رہا جب ہم اپنی اماں حضور کی عقابی نظروں سے بچ بچا کر درسی کتابوں کے بیچ میں چھپا کر اس طرح کے رومانوی ناول اور عمران سیریز پڑھا کرتے تھے۔ اچھی کتاب اور موسیقی کا یہی تو کمال ہے کہ ماضی کی خوبصورت یادوں کی جھٹ پٹ سیر کروا دیتی ہے جنہیں ہم بھولے بیٹھے ہوتے ہیں۔
ناول میں سچویشن کے حساب سے شاعری کے برمحل اور عمدہ انتخاب کے تڑکے نے پڑھنے کا سواد دوبالا کیا۔ رخسانہ افضل صاحبہ کیوں کہ نثری نظمیں بھی تخلیق کرتی ہیں اس لیے انہوں نے موقع کی مناسبت سے دوسرے شعراء کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری کا انتخاب بھی قارئین کی نذر کیا ہے۔ اس طرح قارئین نثر کے ساتھ ساتھ شاعری سے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔
رخسانہ افضل صاحبہ کا یہ ناول “کدی آ مل سانول یار وے” پہلے ہی سوشل میڈیا پر قسط وار پوسٹ ہو کر قارئین ( جن میں ایک بڑی تعداد سنجیدہ خواتین اور نوجوان نسل کی ہے) کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا چکا ہے اور پسندیدگی کی سند حاصل کر چکا ہے۔ مجھے اس ناول کی جس بات نے زیادہ متاثر کیا وہ اس ناول کے ذریعے دیا جانے والا مثبت سماجی پیغام ہے۔ اس ناول میں دو حساس موضوعات کو دو کہانیوں کی شکل میں نہایت سلیقے اور کمال مہارت سے زیر بحث لا کر آپس میں ضم کیا گیا ہے کہ کہیں کوئی جھول محسوس نہیں ہوا۔ مصنفہ نے نہایت جرات سے کارو کاری جیسی قبیح رسم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اس کی بھرپور مذمت کی ہے۔ ناول کا بنیادی موضوع سید اور غیر سید خاندانوں کا آپس میں رشتے کرنے میں متذبذب ہونا ہے۔ سید گھرانے کی لڑکی کی شادی غیر سید فیملی میں کرنے کے بارے میں ہمارا معاشرہ آج بھی قدیم روایات کے شکنجے میں بری طرح جکڑا ہوا ہے جس کے نتیجے میں بچیاں اپنے گھروں کی نہیں ہو پا رہی ہیں اور بروقت شادیاں نہیں ہونے کی وجہ سے بہت سے معاشرتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ مگر امید افزا بات یہ ہے کہ اب وقت بدلتا جا رہا ہے اور رسم و رواج اور روایات میں بھی کافی خوشگوار تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اس ضمن میں درست سمت میں سماجی تربیت کے ساتھ حقیقتا ہم سب کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔
رخسانہ افضل صاحبہ نے اپنے اس ناول میں محبت کے خوبصورت رنگوں اور محبت کی طاقت کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ نہ صرف پینٹ کیا ہے بل کہ نہایت موثر انداز میں یہ پیغام دیا ہے کہ اپنے پیاروں کا مان رکھتے ہوئے محبت ہار کر بھی جیت جاتی ہے کہ محبت تو طاقت ہے، کمزوری ہرگز نہیں۔ ناول کا اختتام نہایت خوشگوار ہے کہ محبت اپنوں کی فرمانبرداری اور سعادت جیسے اوصاف کے ساتھ آخرکار خود کو منوا ہی لیتی ہے۔ عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے عورت کا اپنی ہی محبت کو قربان کر دینے کا جذبہ اور حوصلہ آج بھی ناقابل شکست ہے۔
المختصر “کدی آ مل سانول یار وے” ایک سید زادی اور ایک غیر سید کی ایک باوقار رومانوی داستان ہے جس کو نہایت شائستگی اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر بیان کیا گیا ہے۔ مصنفہ کی جانب سے نوجوان نسل کے لیے یہ ناول درحقیقت ایک عمدہ تحفہ ہے۔
امید ہے کہ رخسانہ افضل صاحبہ آئندہ بھی اپنی آنے والی تخلیقات میں اسی طرح کے اہم سماجی موضوعات پر قلم اٹھائیں گی۔ اور اسی مستقل مزاجی کے ساتھ پختہ و نا پختہ اذہان کی سماجی تربیت کرتی رہیں گی۔
رخسانہ افضل صاحبہ کے کامیاب ادبی سفر کے لیے ڈھیر ساری دعائیں اور نیک خواہشات!