93

کریمو کا پاکستان/تحریر/بلال احمد معاویہ اعوان

بلال احمد معاویہ اعوان

کریمو جس کا اصل نام کرم دن تھا لیکن سب پیار سے اسے کریمو کہتے تھے،وہ اور اس کے والدین آزادی کا اعلان سن چکے،انہوں نے سنا کہ ایسا ملک نقشۂ عالم پہ ابھر چکا ہے جہاں اسلامی قوانین کا غلبہ ہوگا
کریمو کے والد بخشو جو کلکتہ میں دکان کرتے تھے،شام کو واپس گھر پلٹے تو گھر داخل ہوتے ہی کہا
”او خوش بختی کچھ سنا تم نے۔۔۔۔؟“
کیوں میاں جی کیا ہوا۔۔۔۔؟
کیا پاکستان بن تو نہیں گیا۔۔۔۔۔؟
بولو ناں کہ ہاں ایسا ہی ہے
بخشو کی بیگم نے ایک ہی سانس میں تمام سوال داغ دیے
بخشو تھوڑی دیر خاموش رہ کر پورے حوصلے سے کہنا لگا
”ارے ہاں ناں مقدس سرزمین مسلمانوں نے حاصل کر لی ہے“
اسی دوران خوشی کے آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ کرنے لگے
ارے کریمو!!!!! چھوٹی کو ساتھ لو، یہ لے پیسے اور مسجد کے امام صاحب کے پاس جاؤ اور انہیں دے آؤ کہ غریبوں میں بانٹ دے،کہنا یہ میری ماں کی منت تھی لہذا اس کے پیسے ہیں“
کریمو کی ماں نے بچوں کو اپنی منت جو اس نے آزادی کے لیے مانی تھی کے لیے پیسے دے کر روانہ کیا اور خود وضو کر کے جائے نماز بچھا کر شکرانے کے نوافل ادا کرنے لگی۔
کریمو اپنی چھوٹی بہن سے رستے میں کہنے لگا ”چھوٹی پتہ ہے اب ہم وہاں جائیں گے،جہاں ہم اک خوش حال زندگی گزار سکیں گے،ہمیں وہیں پہ کسی ظلم کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا،میں وہاں اچھے اچھے سکولوں میں محنت سے پڑھائی کر کے بڑا آدمی بنوں گا،پھر تمہارے لیے ڈھیر ساری چیزیں لایا کروں گا “
کریمو اعلان آزادی سن کر بہت جذباتی ہو رہا تھا،اب اس کی ایک ہی تمنا تھی کہ کب وہ پاکستان پہنچے،کبھی وہ سوچتا کاش اسے پر لگے ہوتے تو اڑ کر ارض پاک پہنچ جاتا۔
اعلان آزادی کے بعد آہستہ آہستہ مسلمان گھرانے ہجرت کرنے لگے،لیکن کریمو کے والد کا کچھ لین دین تھا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک وہیں رکے ہوئے تھے۔
کریمو کے لیے یہ دن کرب کے لمحات تھے،ایک دن اس نے ابا سے کہا
”ابا وہ رضیہ خالہ بھی پاکستان چلے گئے ہیں،وہ میرا لنگوٹیا یار فتح خان بھی چلا گیا ہے،ساتھ والا گاؤں بھی خالی ہو چکا،ابا ہم کب جائیں گے۔۔۔۔۔؟“
اب محلہ آہستہ آہستہ سنسان ہونے لگا،تمام مسلمان ہجرت کر چکے تھے،لہذا اک دن کریمو کے والد نہایت خوشی خوشی گھر آئے اور گویا ہوئے”کرم دین پتر تیاری کر چل چلیے پاکستان “
یہ سننا تھا کہ کریمو نے اک زبردست نعرہ بلند کیا ”پاکستان زندہ باد“
باپ نے کریمو کو سمجھایا پتر آہستہ بول اگر کسی ہندو یا سکھ بلوائی نے سن لیا تو جان سے ہاتھ دھوئے گا
کریمو کے والدین نے رات کے پچھلے پہر سفر ہجرت شروع کیا،ہزاروں طرح کے ارمان دل میں تھے،لیکن رستے میں ہندو بلوائی ٹوٹ پڑے،اس کے والدین کو قتل جبکہ اکلوتی بہن (جسے سب چھوٹی کہہ کر پکارتے تھے) کو قید کر لیا،کریمو کو اک ڈنڈا سر پہ پڑا جس سے وہ بے ہوش ہوگیا،ہندو بلوائی اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے،کریمو نیم بے ہوشی کے عالم میں آخری بار انتہائی بے بسی سے چھوٹی کو دیکھ رہا تھا،وہ آواز نکالنا چاہتا تھا مگر درد کی شدت سے اس کے حلق سے آواز بھی نہ نکلی، شدید زخمی جان بچاتے زخموں سے چور کریمو پاکستان کی طرف بڑھنے لگا۔زخموں کے ساتھ اب بھوک اور پیاس کی صعوبت بھی برداشت کرنا پڑی رہی،لباس غبار آلود اور تار تار ہو چکا تھا۔رستے میں اسے کئی بے گور و کفن لاشیں پڑی ملیں،وہ لاشیں بھی کریمو کے والدین کی طرح ان لوگوں کی تھیں جو اپنی آنکھوں میں سرزمین پاکستان کی قدم بوسی کے لیے کئی خواب دل میں سجائے چلے تھے،مگر رستے میں ہی انہیں ابدی نیند سونا پڑا۔
بالآخر اک کٹھن اور تکلیف دہ سفر کے بعد وہ پاکستان پہنچا۔لہراتے سبز ہلالی پرچم کو دیکھ کر اس نے کلمہ شکر ادا کیا اور سجدہ شکر بجا لایا۔اب کریمو اکیلا تھا،جس کا خاندان اور مال و اسباب سب لٹ چکے تھے۔وہ چھوٹی کے یاد میں ہر وقت روتا رہتا کہ نہ جانے اس معصوم جان پہ ان ظالموں نے کیا ظلم کے پہاڑ توڑے ہوں گے۔۔۔۔؟
کچھ دن مہاجرین کے خیموں میں رہنے کے بعد کریمو نے اپنی گزر بسر کے لیے روزگار ڈھونڈ لیا۔وہ سمجھتا تھا کہ پاکستان اس کے خوابوں کی تکمیل کا دوسرا نام ہے۔وہ ارض پاک کو مسجد کی طرح مقدس سمجھتا تھا،وہ یہاں پہ نظریہ پاکستان کے اصولوں کو رائج ہوتا دیکھنا چاہتا تھا
مگر ہائے کریمو کے خواب۔۔۔۔۔۔
آزادی کے تقریباً دو دہائی گزرنے کے باوجود جب ملک میں اس کے خواب کے بر خلاف عوامل ظاہر ہونا شروع ہوئے تو وہ مقصدِ حصولِ پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے لگا،وہ حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ صرف اس وجہ سے بناتا تھا کہ اسے اپنے خواب کی تکمیل پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔
اس کا امیر شہر سے جھگڑا صرف اس بات پہ تھا کہ پاکستان اسے ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بنتے نہیں دکھ رہا تھا۔
جس بنا پہ کریمو پہ مقدمات قائم ہوئے اور اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا اور اسے مجرم قرار دیتے ہوئے دس سال قید کی سزا سنا دی گئی،جیل سے رہائی ہوئی مگر پھر وہی حالات
اسے مقصدِ حصول وطن پورا ہوتا نظر نہ آ رہا تھا جس پہ وہ کڑھتا رہتا تھا اور ہر وقت کرب میں رہتا تھا، بالآخر کریمو کو اس کرب سے نجات ملی اور ایک روز وہ اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا،یوں کریمو اس پاکستان کا خواب لیے ابدی نیند سو گیا،جس کے لیے اس کے اسلاف نے قربانیاں دی تھیں،لیکن افسوس اس کا خواب آج تک سات دہائیاں بیتنے کے باوجود شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں