آ ج کل ہمارے سیاسی منظر نامے پر آ ئے روز نت نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ پچھلے کچھ ماہ سے ایسے واقعات کا تسلسل ہو رہا ہے جو خاصے اہمیت کے حامل ہیں ۔ مثال کے طور پر ہمارے بہترین صحافیوں میں سے ایک صحافی کا بیرون ملک قتل، ایک مقبول سیاسی لیڈر پر قاتلانہ حملہ، ملک کے سیاسی ایوانوں میں موجود اور ایک سیاسی جماعت کی حمایت کا اظہار کرنے والے عام افرادپر غیر اخلاقی
تشدد وغیرہ۔
حتیٰ کے خواتین تک کے ساتھ نازیبا سلوک صرف سیاسی وابستگی ظاہر کرنے پر۔۔۔
سیاست دانوں کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد ، صحافی، وکلا ، انجینیرز، ڈاکٹرز وغیرہ کو غیر قانونی حراست میں رکھنا۔۔۔
افراد کا اچانک لا پتہ ہو جانا۔۔۔ذرائع ابلاغ پر مضبوط گرفت وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
اس تناظر میں ترکی ڈرامہ “کورولش عثمان ” جو عثمان غازی کی زندگی اور سلطنت عثمانیہ کے قیام پر مبنی ہے ، اس کا چوتھا سیزن یوں محسوس ہوتا ہے گویا واقعات و سازشی جال ہمارے موجودہ حالات کی ہی غمازی کرتے ہوں ۔
اس ڈرامے کی اقساط میں اس دور کی اندرونی و بیرونی سازشوں اور ان سے نمٹتے ہوئے عثمان غازی کی حکمت عملی ، ہمارے ” بڑوں” کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔
دیکھا جائے تو آ ج بھی منظر نامہ وہی ہے جو تیرھویں صدی میں تھا ، بدلا ہے تو کچھ لوگوں کا چہرہ اور ہماری سہولیات !
اس دور میں جنگیں تلوار سے اور سازشوں سے لڑی جاتی تھیں تو آ ج کے دور میں جنگوں کا میدان عوامی ذہن بنا ہوا ہے. ٹیکنالوجی پر جس کی جتنی دسترس اتنا ہی عوامی ذہن کو کنٹرول کرنا آ سان!
اب سوال یہ ہے کہ تیرھویں صدی میں تو عثمان غازی اندرونی و بیرونی سازشی عناصر کو ختم کر کے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گئے تھے ، تو کیا آ ج ہمارے بیچ کوئی عثمان غازی بن کر ابھرے گا اور ہمیں ہماری وہ سلطنت یاد دلا دے گا جہاں انصاف کا دور دورہ تھا، عوامی شعور بیدار تھا اور ایک فلاحی ریاست وجود میں آئی تھی، یا ابھی ہمیں مزید انتظار کرنا پڑے گا!
ڈرامے میں جس طرح عثمان غازی کی حکمت, سیاست اور بہادری کو بیان کیا گیا ہے ، تاریخ کے اوراق میں اس سے کئی گنا زیادہ ان کی عظیم حکمت عملی اور جنگجوانہ صلاحیتوں کی مثالیں موجود ہیں ۔
آ ج بھی ہم بحیثیتِ قوم بس انتظار ہی کرتے رہتے ہیں کہ کوئی آ ئے اور ہماری تقدیر بدلے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جو قوم خود کوشش کرتی ہے ، کامیابی اسے ہی نصیب ہوتی ہے ۔
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم مزید ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر انتظار کرتے رہیں یا پھر خود کو اس قوم میں ڈھالیں جہاں عثمان غازی جیسا عظیم راہنما خود بخود پیدا ہو جائے۔۔۔
جب ہمارا ماحول ہی دوغلے پن اور منافقت کو پروان چڑھائے گا تو ایسے میں کسی عظیم لیڈر کی توقع رکھنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔۔
بات یہ ہے کہ ہمیں خود اپنے شعور کو بیدار کرنا ہے تاکہ ہماری نسلیں ایک با شعور ماحول میں پروان چڑھیں جہاں انہیں حق و باطل کی تمیز سکھانے کے ساتھ ساتھ اسلامی روایات و شریعت کا علم بھی دیا جائے ۔
آ خر میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں موجود مدرسوں کا ذکر ضرور کروں گی جن کے داخلی دروازوں میں جلی حروف میں درج تھا
“یہاں پرندوں کو اڑنا اور مچھلیوں کو تیرنا سکھایا جاتا یے۔”
جبکہ ایمانداری سے کہا جائے تو چند ایک تعلیمی اداروں کے علاوہ باقی تعلیمی ادارے اور تعلیمی نظام انتہائی فرسودہ ہے، ہمارے بچے رٹو طوطے بن رہے ہیں۔۔۔
ذہنی صلاحیتوں کو امتحانی نمبروں تک محدود کر دیا گیا ہے اور نمبر لینے کی عجیب دوڑ مسلسل جاری ہے۔۔۔۔
ہر بچے کو اس کی استعداد کے بجائے ایک فرسودہ نصاب رٹوا دیا جاتا ہے، بچہ 1100 میں سے 1100 نمبر حاصل بھی کر لیتا ہے لیکن اس کی قدرتی صلاحیتوں کو تھپک تھپک کر سلا دیا جاتا ہے۔۔۔
کسی بھی عظیم مقصد کی شروعات ہمیشہ بچپن میں کی جاتی ہیں اور پہلی اینٹ ہی عمارت کی سیدھ یا ٹیڑھ کا تعین کرتی ہے ، اس تناظر میں ہمیں اپنے تعلیمی معیار ، گھریلو ماحول ، معاشرتی ماحول ، سیاسی ماحول کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ، تب ہی کسی عثمان غازی کا جنم ممکن ہو سکے گا۔