معاذ معاویہ

یہ سفر بہت شاندار ہونے والا تھا کیونکہ اس سفر کا مقصد سیر نہیں بلکہ محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت تھی
پیارے دوست محترم جناب سلیم معاویہ بھائی کی محبت کہ انہوں نے بندہ ناچیز کو حضور کی ثناء بیان کرنے کے لئے اتنی دور دعوت دے ڈالی
سفر کا آغاز لاہور ریلوے اسٹیشن سے کیا گیا یہ میر پہلا تجربہ تھا ریل میں اتنے لمبے سفر کا جو کہ ناکام ہوا
اگر انسان کو کہیں وقت پر پہنچنا ہو تو ریل کا سفر بلکل بھی نا کرے ہاں فارغ انسان انجوائے کے لئے کر سکتا ہے کیونکہ ریل معمول کے مطابق ہمیشہ لیٹ ہی ہوتی ہے
خیر ابھی پنڈی پہنچنے ہی والا تھا کہ پیارے دوست حسنین معاویہ نے ویلکم کا میسج کر ڈالا بس پھر کیا تھا ہم حسنین بھائی کی محبت کے مقروض ہونے کے لئے تیار ہو گئے حسنین بھائی کے پاس پہنچے تو بارش نے ہمارا استقبال کیا حسنین بھائی پرتکلف ناشتے کا انتظام بھی کر رکھا تھا
اللہ پاک میرے دوست کو سلامت رکھے گلگت روانگی کے لئے ٹکٹ پہلے سے ہی کروالی گئی تھی
اپنے بہت پیارے دوست مولانا زین العابدین اور سمیع اللہ عباسی صاحب کے ہمراہ گلگت کے سفر کا آغاز کیا سفر کے لئے مارکوپولو بس کا انتخاب کیا گیا تھا اپنے نام کی طرح وہ بس خطرناک تھی مانسہرہ تک تو شدید بارش کا ساتھ رہا اور پھر قراقرم ہائی وے پر چڑھا دی گئی توبہ اس سے زیادہ خطرناک راستہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور ڈرائیور بھی شاید گھر سے لڑائی کر کے آیا تھا میں تو ہر موڑ پر کلمہ پڑھ لیتا تھا پھر اپنا دھیان شاعری لکھنے میں لگایا اور سارے راستے میں اللہ پاک کی طرف سے تحفے میں حضرت عمر فاروق اور حضرت حسین کی شان میں منقبت لکھنے کو ملی اللہ اللہ کر کے سفر طے ہوا اور ہم گلگت کی سر زمین پر جا پہنچے اللہ اکبر کیا خوب صورت جگہ تھی دریائے سندھ سارے راستے ہمارے ساتھ رہا کبھی دائیں اور کبھی بائیں بڑے بڑے پہاڑوں کو چیرتا ہوا سورج گلگت کی سر زمین پر ہمارا استقبال کر نے کو تھا گلگت پہنچتے ہی ہم نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور جھٹکا تو تب لگا جب ڈرائیور نے یہ جملہ کہنے لگا سب سواریوں سے مجھے معاف کرنا اگر کوئی بھول چوک ہو گئی ہو تو
بس اس وقت اللہ پاک کا شکر اتنا تھا کہ ہم اس کو کچھ کہہ ہی نہیں سکے اور اپنے سامان کو پکڑے اڈے سے باہر آگئے اپنے میزبان بھائی سلیم کو فون کیا اور پتہ پوچھا ہمارے ہم سفر سمیع بھائی نے راستے میں ایک دوست بنا لیا تھا جو کہ گلگت کا رہائشی تھا وہ ہمارے اکرام میں ہمیں ہماری منزل تک لے گیا
معاویہ بھائی کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی ایک ہوٹل کے باہر کھڑے ہمارا انتظار کر رہے تھے پہلے ہی کھانا ٹیبل پر لگوا چکے تھے اور سچ تو یہ تھا کہ ہمیں بھوک بھی بہت لگی ہوئی تھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا سلیم بھائی نے ہوٹل پہلے سے بُک کروایا ہوا تھا ہمیں ریلیکس ہوٹل میں لے گئے اور روم کی چابی دے دی اپنے نام کی طرح ہوٹل واقع ہی ریلیکس تھا فریش ہونے کے بعد ہم ایسا سوئے کہ کوئی ہوش نا رہی بس اتنا یاد ہے کہ نیند میں بھی گاڑی پہاڑوں پر خطرناک موڑ کاٹتی نظر آرہی تھی
ہم مزے کی نیند سو رہے تھے کہ اچانک مؤذن نے اللہ اکبر کی صدا سے یاد کروایا کہ آج جمعہ ہے مسلسل تین گھنٹے نیند کی آغوش سے نکلے اور فریش ہوئے معاویہ بھائی آئے اور کھانے کے لئے لے گئے اتنے میں خبر ملی کہ آج مشاعرے کے خصوصی مہمان اور ہمارے جگری دوست مصعب شاہین قریب پہنچ گئے ہیں استقبال کیا اور کچھ تصویریں بنائی ہوٹل کی چھت پر الّٰلہ کی قدرت کے نظارے کرنے پہنچ گئے آہا کیا ہی خوبصورت منظر تھا بڑے بڑے پہاڑ ایک طرف تیز پانی کی تیز لہروں کے ساتھ بہتا ہوا دریا ایک طرف ایک طرف دھوپ اور دوسری طرف چھاؤں اور کسی دور پہاڑ پر برف کا نظارہ یامیرے الّٰلہ تیری قدرت کے کیا کہنے تو نے دنیا کو اتنا خوبصورت بنایا ہے تو جنت کیسی خوبصورت ہو گی بس ہمارے مقدر میں جنت کرنا دل ہی دل میں یہ دعائیں نکلنے لگی اور پھر باتوں ہی باتوں میں مغرب کا وقت ہوا اور گاڑی لینے کے لئے آ گئی تیاری کی اور مشاعرے والی جگہ پر پہنچ گئے وہاں دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اتنا مجمع اور وہ بھی پر جوش نظر آرہا تھا ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ بلتستان کی سرزمین پر پہلا مشاعرہ ہے جو کہ شبان ختم نبوّت کے زیرِ اہتمام رکھا گیا ہے دل میں بس یہی دعا تھی کہ اللہ پاک اس مشاعرے کو کامیاب کرے تا کہ گلگت کی سرزمین پر نبی کی سیرت اور صحابہ کی عظمت کے بے شمار مشاعرے رکھے جائیں اور ہم بانئین میں شامل ہو کر ہمیشہ ثواب حاصل کرتے رہیں اور خوشی کی بات یہ تھی کہ انتظام بھی ختم نبوّت کے مرکز کے اندر تھا اور موضوع کے تو کیا ہی کہنے ختم نبوّت کے موضوع کے ساتھ ساتھ خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق اور نواسائے رسول حضرت حسین موضوع تھا تلاوت قرآن پاک سے مشاعرے کا آغاز ہوا اور نعت کے فوراً بعد مقامی شعراء کرام نے اپنی گلگتی زبان میں اشعار پڑھے جو کہ ہمارے سر سے گزر گئے لیکن جب گلگت کے شعراء کرام نے اُردو میں کلام سنائے تو مزہ آگیا میرے ساتھ پنجاب کے پانچ شعراء کرام اور بھی موجود تھے سب نے باری باری اپنے مخصوص انداز میں کلام سنائے اور خوب داد وصول کی مشاعرے کے بعد گلگت بلتستان کے شبان ختم نبوّت کے امیر صاحب نے پنجاب سے آنے والے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ یہاں کہ لوگ عشاء کہ فوراً بعد سو جاتے ہیں لیکن آج آپ کی محبت نے انہیں یہاں رکنے پر مجبور کر دیا پروگرام سے فارغ ہو کر ہمیں ہوٹل واپس پہنچا دیا گیا پنجاب کے ہم تمام دوست کافی عرصے بعد ملے تھے ساری رات خوب گپ شپ اور شاعری میں گزری صبح نماز فجر کے بعد ہم تمام دوستوں نے واپسی کے سفر کی مشاورت کی میری رائے یہ تھی کہ واپسی کا سفر قراقرم جیسے خطرناک ہائی وے کی بجائے بابو سرٹاپ کے راستے سے کیا جائے جو کہ دوستوں کو بہت پسند آئی اور اپنے میزبان سے اجات طلب کی
واپسی کے سفر میں میرے ساتھ
زین العابدین صاحب زینی اٹک
نعیم صاحب سرگودھا
سمیع اللہ عباسی صاحب بہاولپور
بھائی ثاقب اسلام آباد سے شریک ہوئے
واپسی کا سفر بہت شاندار ہونے والا تھا گلگت سے بابو سرٹاپ کی طرف رخ کیا جیسے ہی چلاس کا علاقہ شروع ہوا تپتے ہوئے سورج نے گرمی کا احساس دلوایا ایک دوسرے کی شاعری سنتے سنتے ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا ڈرائیور ہماری ادبی گفتگو سے خوب لطف اندوز رہا تھا اسی خوشی میں ڈرائیور نے ایک ڈھابے پر گاڑی کھڑی کی چلتی ہوئی آبشار سے پانی پیا منہ دھو کر فریش ہوئے جیسے ہی چلاس کا علاقہ ختم ہوا ٹھنڈی ہوا لگنے لگی وقت کے ساتھ ساتھ ٹھنڈ بڑھتی گئی واہ میرے اللہ تیری قدرت کے کیا کہنے دو علاقے ساتھ ساتھ ایک آگ کی طرح گرم اور پہاڑ کے دوسری طرف دوسرا علاقہ ٹھنڈا گاڑی کے شیشے بند کر دیئے گئے بابو سر ٹاپ کی بلند ترین پہاڑیوں کی طرف رواں دواں تھے کیا ہی خوبصورت دلکش منظر تھا بڑے بڑے پہاڑ دونوں طرف ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے جگہ جگہ آبشاریں بہہ رہی تھی بل کھاتی ایک ندی مسلسل ہمارے ساتھ پہرا دے رہی تھی گاڑی میں صحابہ اکرام کے ترانے اور مختلف نظموں سے ہم لطف اندوزہو رہے تھے میں دل ہی دل میں پہاڑوں ندی اور آبشاروں سے باتیں کرنے لگا پہاڑو گواہ رہنا روز قیامت جب حساب کاوقت ہو گا میرا اللہ تمہیں بولنے کے لئے زبان دے گا تو میری گواہی ضرور دینا کہ میں ادنیٰ سا انسان اللہ کی واحدانیت بیان کرنے کے لئے ان راستوں سے گزرا تھا اے آبشاروں تم بھی گواہی دینا کہ نبی کی سیرت بیان کرنے کے لئے ان راستوں سے گزرا تھا اور ندی کو مخاطب کر کے میں دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ شائد میری بخشش بہت دور ہو اور یہ ندی قیامت کہ روز گواہی دے کے یا رب یہ بندہ ان پہاڑوں میں سے جب گزرا تو اس کے لبوں پر تیرا نام تھا تیرے محبوب کی سیرت تھی یارب تیرے محبوب کے جانثار صحابہ اکرام کی عظمت تھی تو اللہ پاک کو مجھ پہ پیار آجائے ابھی خوش فہمی میں مبتلا ہی تھا کہ اچانک دور پہاڑ پر نظر پڑی اتنا بڑا لکھا ہوا تھا سلام صحابہ اکرام دل خوشی سے جھومنےلگا بہت دور تک وہ پہاڑ نظر آتا رہا کتنے ہی پہاڑ چڑھ کے بابو سر ٹاپ کہ مقام پر پہنچ گئے اتنی سردی تھی کہ ہمارے ہاتھ پاؤں نیلے پڑنے لگے وہاں پر ایک عالم دین سے ملاقات ہوئی پوچھنے لگے کیسے آنا ہوا ان کو بتایا کہ ہم یہاں مشاعرے میں آئے تھے گلگت اور اب واپس جا رہے ہیں بہت خوش ہوئے ہماری حالت دیکھ کر کہنے لگے کہ ہمارے کوٹ لے لو اور واپسی پر دے جانا ان کا شکریہ ادا کیا اور سردی کم کرنے کے لئے کافی اور گرم انڈے کھائے بابو سر ٹاپ کی بلند ترین پہاڑیوں پر یہ احساس ہوا کہ وہ کیا وقت ہو گا جب صحابہ اکرام اپنے گھوڑوں پر یہاں سے دین کی خاطر گزرے ہوں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر جان چھڑکنے والے صحابہ سردی گرمی کی فکر کئے بغیر جب نکلتے ہوں گے تو کیا عالم ہوتا ہوگا اور جب ان پہاڑوں پر رات بسر کرتے ہوں گے اللہ اللہ کیا منظر ہوتا ہوگا اور ان گھوڑوں کے قدموں کی آوازیں جب ان پہاڑوں میں گونجتی ہوں گی کیسے کفر پر لرزا تاری ہوتا ہو گا اب بابو سر ٹاپ سے ناران کے سفر کا آغاز ہوا اس وقت ہم ایک ٹرپ کے ساتھ جڑ چکے تھے وہ سب لوگ فیصل آبادی تھے آگے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ سفر کیسا رہا ہوگا راستے میں اللہ کی قدرت کا ایک اور شاہکار جہاں پر کچھ دیر کے لیے ٹھہرے لولو سر جھیل کیا خوبصورت منظر تھا ناران پہنچے کھانا کھایا اور پنڈی کا سفر شروع کیا راستے میں مشورہ کیا کہ ایک نعت سب مل کر لکھتے ہیں الحمد للہ سب نے دو دو اشعار لکھے اور نعت مکمل کی ہمارے دو اشعار یہ ہیں
عثمان کے در سے لئے خیرات کی صورت
دنیائے تجاہل میں حیا بانٹ رہا ہوں
حسان سے مدحت کا سبق لے کہ جہاں میں
میں فکر گھنگوں میں نوا بانٹ رہا ہوں
ساےراستے سگنل ہمارا ساتھ چھوڑ چکے تھے مانسہرہ پہنچے تو سگنل بہ
بحال ہوئے فوراً فیصل موورز پر رابطہ کیا اور پنڈی سے لاہور کی ٹکٹ بک کروائی ایبٹ آباد رُکے چائے پی اور نماز فجر ادا کی بہت لمبا سفر طے کرنے کی وجہ سے تقریباً میرے تمام دوست سو چکے تھے لیکن مجھے فکر تھی کہ جس ٹائم پر ٹکٹ کروائی ہے اس وقت تک میں پنڈی پہنچ جاؤں اللہ کا کرنا 6 بجے پنڈی پہنچے تو گاڑی کھڑی ہوئی تھی اپنے تمام دوستوں کو الوداع کہا پنڈی سے لاہور کا سفر اکیلے طے کیا میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص ادب شاناس محسوس ہوئے سلام دعا کے بعد مختصر تعارف ہوا یوں گپ شپ شروع ہوئی پتا بھی نہیں چلا کہ کب ہم لاہور آن پہنچے یوں تقریباً 30 گھنٹے مسلسل سفر کے بعد ہم اپنی منزل پر پہنچے
یہ سفر میری زندگی کے یاد گار سفروں میں شامل ہوا
گلگت والے دوستوں کی محبتوں کا میں مقروض ٹھہرا
اللہ پاک میرے دوستوں کو سلامت رکھے آخر میں ایک شعر گلگت کے دوستوں کے لئے
سی بے لوث اینی او مہماں نوازی
رکھاں یاد گلگت دے میں واسیاں نوں
