99

ہری پور جیل میں گذرے ماہ و سال/تحریر/فوزیہ تاج/کمانڈنٹ پرزن سٹاف ٹریننگ اکیڈمی(ہری پور)

تحریر/فوزیہ تاج/سابق ڈپٹی سپریڈنٹ ہری پور جیل

آج سے سترہ سال قبل ہری پور سینٹرل جیل میں بحیثیت اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جوائن کیا تھا. پھر سینیئر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اور کچھ عرصے بعد ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کے عہدے پر فائز ہوئی۔

*اعزازات*
*دو کراؤن، تین کراؤن، چاند تارہ اور اب چاند تارے کے ساتھ ایک کراؤن میرے شولڈر پہ سجے میرا مان، میری عزت ہیں*

جیل میں گزارے یہ ماہ و سال یقیناً خوشیوں بھرے ہرگز نہیں تھے. آپ کو اگر اپنی زندگی کا ایک بھرپور حصہ ان لوگوں کے ساتھ گزارنا پڑے، جنھیں معاشرے نے دھتکار دیا ہو. سرطان زدہ قرار دے کر دنیا سے الگ تھلگ کر دیا ہو. تو آپ سمجھ جائییے کہ آپ کو ان لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے چن لیا گیا ہے. ایسے میں.. اپنی ذات سے منسوب دکھوں کو بھول جانا چاہیے. ان لوگوں سے منسلک ہونے کے بعد میں واقعی اپنا آپ بھول گئی.مختلف رنگ، نسل، زبان سے تعلق رکھنے والے ملکی غیر ملکی، امیرغریب، گناہ گار سے لے کر بے گناہ لوگوں تک کو اس چکی میں پستے دیکھا. اور آج جب پروموشن کے بعد اس جیل سے جا رہی تھی تو اپنا محاسبہ کرنا ضروری سمجھا. کسی اور کے جواب دینے سے قبل انسان کا اپنا ضمیر اسے کٹہرے میں لا کھڑا کر دیتا ہے اور اگر وہ بدقسمتی سے زندہ بھی ہو تو  لگا کے کوڑے مارتا ہے. اور پھر میرے گواہ بن گئے…. ان بے یارو مددگار قیدی عورتوں اور بچوں کے آنسو…. جو مجھے جانے سے روک رہے تھے.میرے گلے سے لگی وہ عورتیں جن سے میرا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا. میرے جانے کی خبر سن کر بے چینی سے آنسو بہا رہی تھیں . ایک عورت روتے ہوئے کہہ رہی تھی. میڈم پلیز! ہمیں چھوڑ کر مت جائیں.پھر خود کلامی کے انداز میں بولی! پتہ نہیں میری قسمت ایسی کیوں ہے. جو  بھی مجھے اچھا لگتا ہے مجھ سے دور چلا جاتا ہے. ہر ایک اپنے اپنے  الفاظ میں میرے جانے پر دکھ کا اظہار کر رہی تھی.
میرا آرڈر ایک ہفتے قبل آ چکا تھا. مگر چودہ اگست کے بعد میں نے جوائن کرنا تھا. ساتھی کولیگز اور وارڈن نے کہا کہ ابھی اپنے جانے کے متعلق عورتوں کو نہ بتائیں. وہ پریشان ہو جائیں گی. پھر 13 اگست کو دفتر آئی اور اس دن بتایا کہ میری ٹرانسفر ہو گئی ہے اور آج میں نے دفتر سے اپنا سامان اٹھانا ہے. اطلاع ملتے ہی جیل میں کھلبلی مچ گئی. کچھ ہی دیر میں عورتیں میرے ارد گرد جمع تھیں. وہ جو رونا دھونا شروع ہوا کہ مجھے اور میری کولیگز کو بھی رلا کے دم لیا. پھر روتے روتے ہی اردگرد سے میرا سامان اکٹھا کرنے لگیں. آفس میں لگی میری شیلڈز، ٹرافیاں اور فریمز. اسکے علاوہ الماریوں میں رکھے میرے یونیفارم اور باقی چیزیں. آفس میں میرے گھر سے زیادہ سامان تھا. کیونکہ دن کا ایک طویل حصہ وہاں گزرتا اور کسی دوسرے کی آمدورفت نہیں تھی. ایک دن بعد 14 اگست تھا. عورتوں نے مختلف پروگرامز تیار کئے ہوئے تھے. ان میں سے ایک اپنی ٹیچر سے بولی! مس پلیز کل مجھ سے کوئز میں کوئی سوال نہ پوچھیے گا. کیونکہ جب میں ٹینشن میں ہوتی ہوں تو مجھے سب بھول جاتا ہے.. اور اب میڈم کے جانے کی خبر سن کے میں سب کچھ بھول چکی ہوں. میں پاس بیٹھی خاموشی سے سب دیکھ اور سن رہی تھی. میرے ساتھ دفتر میں جو قیدی لڑکی کام کرتی تھی. وہ متواتر رو رہی تھی. بآواز بلند…. ساتھ ساتھ کہتی جا رہی تھی…جب میں جیل میں آئی تھی ، تو میرے ماں باپ پیچھے رہ گئے تھے. مگر میڈم کے ساتھ رہ کر بھول ہی گئی کہ ماں باپ جیل سے باہر ہیں. اور آج جب میڈم جا رہی ہیں تو لگتا ہے کہ آج ایک بار پھرسے میرے ماں باپ مرگئے ہیں.
دفتر سے ضروری فائلز اور سامان بھجوا دیا گیا. چودہ اگست کے فنکشن میں مہمانوں کی طرح شرکت کی اور پندرہ اگست کو کاغذی کاروائی کے بعد آخری مرتبہ قیدیوں سے ملنے آئی. ان کی خواہش پہ کچھ دیر آفس میں بیٹھی پھر جانے کا وقت ہو گیا. آفس کولیگز بھی افسردہ تھیں. میرا تبادلہ پرزن سٹاف ٹریننگ اکیڈمی ہری پور میں بحیثیت کمانڈنٹ ہوا تھا اور اسی دن مجھے ادھر چارج لینا تھا. سٹاف نے پارٹی ارینج کی تھی.
روتی ہوئی آنکھوں کو چھوڑنے کا دکھ ہمیشہ رہے گا. بے لوث پیار اور خلوص کا حق کبھی ادا نہیں ہو سکتا. گیٹ کیپر تک کو کہا سنا معاف کرنے کا کہہ کر آنسوؤں کی دھند میں گیٹ پار کیا . زندگی کے اٹھارہ سال یہاں چھوڑ کے جا رہی تھی. آنسوؤں کی دھند کے پار ایک بھولا بسرا لمحہ آنکھوں کے سامنے آ گیا. جب بوقت رخصتی دلہن آخری بار گھر کو دیکھتی ہے تو دم آخر ہاتھ ہلاتے سمے آنسوؤں کی دھند کے پار کچھ دکھائی نہیں دیتا.یہاں تک کے ماں باپ، بہن بھائی اور تمام خونی رشتے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں. یہاں بھی میری زندگی کے اٹھارہ قیمتی سال بکھرے پڑے تھے. کاش کہ سمے کو بھی پوٹلی میں باندھ کر ساتھ لے جایا جا سکتا. بکھری یادوں کے انمٹ نقوش کسی قیمتی سامان کی طرح ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے. ہاں… آج بھی آنسوؤں کی دھند میں راستہ طے کیا. دعا کیجیے….. کہ دھند بھرے راستے کا اختتام خوش کن ہو. اور پیچھے رہ جانے والوں کی راہیں بھی آسان ہو جائیں.
( مجھے جس مقصد کے لئے چنا گیا ہے، اسے ایک چیلنج سمجھ کے میں نے قبول کیا ہے. دعا کیجیے… کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس مقصد میں کامیاب کرے… آمین)
یہ تحریر 16 اگست کو لکھی تھی مگر دفتر کے ساتھ ساتھ گھر کی شفٹنگ نے اسقدر مصروف رکھا کہ اتنے دن تک سر اٹھانے کا ہی موقع نہ مل سکا. آج جب نئے دفتر میں میرے 15 دن ہو گئے ہیں. تو سوچا اس بابت بھی تھوڑی بات کر لی جائے. تمام سٹاف بہت اچھا ہے اور یہاں بھی بھرپور انداز میں میرا خیر مقدم کیا گیا. نئی جگہ ایڈجسٹ ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے اور میں ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں. لیکن میری پرانی کولیگز سے جب کوئی بات شییر کرتی ہوں تو ان کا مشورہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ ” نایک   مووی  ضرور دیکھ لو جس میں انیل کپور صرف ایک دن کے لئے  CM بنتا
( دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ پوری دیانت داری سے اپنے دفتری معاملات کو نبھانے کی توفیق عطاء فرمائے اور مقصد حیات میں سرخرو کرے( آمین یارب العالمین )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

ہری پور جیل میں گذرے ماہ و سال/تحریر/فوزیہ تاج/کمانڈنٹ پرزن سٹاف ٹریننگ اکیڈمی(ہری پور)“ ایک تبصرہ

  1. پہلی بار کسی جیلر کی اپنی لکھی ہوئی تحریر پڑھی،
    ا چھا لکھتی ہیں ۔۔۔ سفر جاری رکھیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں