104

ہمارے مرشد عثمانی /تحریر/صھیب عابدفاضل و سابق مدرس ادارہ علوم اسلامی اسلام آباد

استاد محترم ! اللہ آپ کی آخرت کی تمام تر منازل آسان فرمائے اور آپ کی تجدیدی مساعی کو قبول فرما کر آپ کی کامل اکمل بخشش فرمائے آپ بلاشبہ ایک مجدد تھے کہ آج سے تیس پینتیس سال قبل جب مدارس میں عصری علوم پڑھانے کو گمراہی سمجھا جا رہا تھا تو آپ نے رجل العصر بنانے کا ارادہ کیا اور نامساعد حالات میں اس خواب کو شرمندہ تعبیر بنا دیا کسی بھی انقلابی شخص کی طرح آپ کے شخصی محاسن بھی متعدد ہیں مگر آپ کے فکری محاسن آپ کی شخصیت کا اصل حسن تھے میں اپنی کم علمی کو مد نظر رکھتے ہوئے استاد محترم کے چند فکری محاسن کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ بطور طالب علم انکا طرز عمل ہمارے لیے مشعل راہ بنا رہے ایک بڑے خواب کے تعاقب میں آپ نے اہل مدرسہ کے جس رویہ کا سامنا کیا کوئی کمزور اعصاب والا شخص کبھی برداشت نا کر سکتا مگر آپ کے منہ سے کبھی بھی فرقہ وارانہ بحث نا سنی اور الٹا فرقہ واریت کے خلاف برسرپیکار پایا اور اگر بعض اوقات خصوصی محافل میں ان کرداروں کی بد کردار یوں کا ذکر ہوتا تب بھی کہتے کہ میں ان سے ہرگز الگ نہیں ہوں گا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میں ایک الگ فرقہ بن جاؤں جہاد کے نام پہ ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے خلاف فتوی تو اسی ہزار جانیں موت کی گھاٹ اتارنے کے بہت بعد آیا حالانکہ ہمارے استاد محترم اول دن سے اس بات کو واضح لفظوں میں بیان کرتےتھے کہ یہ شرعا غلط ہے اور اس طرز عمل کا دین سے کوئی تعلق نہیں اولو الامر کی اطاعت ،ٹریفک رولز سے لیکر پاکستانی آئین و قانون کا احترام خود کرنا اور اپنے طلباء سے کروانا اور اس میں سختی کروانا اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین میں سے کسی کو بھی کسی صورت میں قانون سے ماوراء نہیں سمجھتے تھے وقت کے وزیراعظم کو امیر المومنین کہ کے پکارتے ہم نے کئیں بار خود سنا اور ریاستی اداروں کے سربراہان کو بھی وہی توقیر دیتے تاکہ بچوں میں ایک تعمیری سوچ پروان چڑھے نوٹ: یہ کوئی ذاتی پسند ناپسند یا مداہنت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اصولی قانونی و شرعی حیثیت سے ان لوگوں کا یہی احترام بنتا اور اسی طرح قوم ترقی کرتی ورنہ بغاوتی طرز فکر میں تخریب ہی تخریب ہے وہ بلاشبہ اصولوں کے پابند تھے مگر ان اصولوں کے اندر رہتے ہوئے اپنی فکر اور اپنی رائے کا برملا اظہار کرنے والی شخصیت تھے اندھی تقلید متبحر عالم کو نہیں جھجتی اور بارہا ان کے منہ سے سنا کہ ہم نے فلاں اچھا کام اس لیے کر دیا کیونکہ ہم نے اپنی سوچ کسی کے پاس گروی نہیں رکھوائی جائز بات کسی بھی شخص کی طرف سے ہو اسے نا صرف قبول کرنا بلکہ موقع کی مناسبت سے اس کا تذکرہ بھی کرتے رہنا کہ فلاں موقع پر فلاں صاحب نےہماری صحیح کی مشورہ اور پری پلاننگ کے ساتھ ہر کام کرنا اور اپنے جمعہ کے بیان تک کے پوائنٹس بھی لکھنا اور اس میں مذکور احادیث کی تخریج اور آیات کی نمبرنگ تک کرتے رہنا اوراپنی ہر ایک بات کی پوری ذمہ داری لینا اعلیٰ شخصی حسن پہ دلالت ہیںجب آپ اصولوں کا پابند ہوں آپ کو امت کی ضرورت کا احساس ہو اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کا خوف نا ہو تو آپ فیض الرحمن عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ سے نسبت اور تعلق کو اللہ کی ایک نعمت سمجھتے ہیں اور میں اس نعمت پہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوںاللہ ہمارے مربی و معلم رحمہ اللہ تعالیٰ کی کامل بخشش فرمائے اور ہمیں ان کی فکری ورثہ کا وارث بنائے آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں