146

یوم دفاع پاکستان اور ہماری ذمہ داری/تحریر/حنظلہ ضمیر منہاس

یوم دفاع پاکستان اور ہماری ذمہ داری
✍️حنظلہ ضمیر منہاس

جنگ بذات خود غیر مہذب سا لفظ ہے…. جس سے انسانی جبلت کوسوں دور بھاگتی ہے…. کیوں کہ انسانی فطرت امن کو پسند کرتی ہے…. لیکن بعض جنگیں ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے لڑنا اور مرنا از حد ضروری ہو جاتا ہے…. امن کے لیے وہ جنگیں ناگزیر ہوتی ہیں…. ان جنگوں میں مائیں اپنے جگر گوشوں کو ازخود بنا سنوار کر روانہ کرتیں ہیں…. یہ نصیحت بھی کرتی ہیں کہ تیر و گولی سینے پہ لگے پشت پہ لگی تو اپنا دودھ معاف نہ کروں گی….

ایسی جنگوں کے واقعات پہ تاریخ کے اوراق بھی فخر محسوس کرتے ہیں…. ایسے واقعات کو بارہا پڑھنے سے بھی دلی پیاس نہیں بجھتی…. ہر بار پڑھنے سے ایک نئی تازگی محسوس ہوتی ہے…. اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے…. لیکن ان جنگوں میں سے ایک جنگ کو اسلام کی بقا کا سبب بھی کہتے ہےں، اگر اس جنگ میں مسلمانوں کوہزیمت ہو جاتی تو اسلام کا وجود باقی نہ رہتا…. جی ہاں اسلام کا شجر اس وقت صرف پندرہ برس کا تھا…. اس وقت 313 نہتے مسلمان 1000 اسلحے سے لیس لشکر کفار سے ٹکرائے تھے….لیکن چشم فلک نے 1000بد مست لشکر کو 313کے ہاتھوں پٹتے دیکھا جو آج تک تاریخ کے انمٹ نقوش کا حصہ ہے…. جس کو پڑھ کر اسلام کی حقانیت کے یقین میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے….

ایسا ہی ایک دن وطن عزیز پاکستان پر بھی آیا جس وقت اس کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی…. جب بھارت نے اپنے خبث باطن سے مجبور ہو کر ستمبر 1965ء کو پاکستان پر شب خون مارا…. بھارت کا خیال تھا کہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے…. لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ شیر سویا ہوا ہو پھر بھی شیر ہی ہوتا ہے…. افواج پاکستان اور عوام پاکستان نے مل کر دیوانہ وار دشمن کا مقابلہ کیا…. طاقت کے نشے سے چور بھارت پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لئے آیا تھا لیکن ہمشہ کے لئے ناکامی کا بدنما داغ اپنے سینے پر سجا کر واپس گیا…. اس جنگ میں فتح کو بھی وطن عزیز کے وجود کا سبب کہیں تو بے جا نہ ہوگا…. اس کے واقعات و قصص کو بارہا دھرانے سے ایک عجیب تازگی کا احساس ہوتا ہے بلکہ اپنے پاکستانی ہونے پہ بھی فخر ہونے لگتا ہے…. آج 6 ستمبر کی مناسبت سے اس جنگ کی روئداد سنانے کا جی چاہ رہا ہے تاکہ وطن عزیز کے ہر باسی کو بھی پاکستانی ہونے پر فخر اور تازگی کا احساس ہونے لگے تو آئیے….

اس جنگ کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 1965ء میں بھارت نے رن کچھ کے محاذ پر پاکستان سے پنجہ آزمائی کی مگر ذلت اٹھانا پڑی۔ جس پر بھارتی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اب ہم مرضی کا محاذ منتخب کر کے پاکستان کو مزا چکھائیں گے۔ چنانچہ بھارت نے 6ستمبر کو اچانک لاہور کے تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ وسط میں لاہور پر حملہ کے ساتھ شمال میں جسٹر کے مقام پر اور جنوب میں قصور کے مقام پر محاذ کھول دئیے جائیں گے۔ ستلج پہ رینجرز کے مٹھی بھر جوانوں نے ان کا راستہ روک لیا۔ ان پلٹونوں کے تمام جوان آخری گولی اور آخری سانس تک لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ نہ کوئی پیچھے ہٹا نہ کسی نے ہتھیار ڈالے بھارتی فوج جسے لاہور کے مضافات میں ناشتہ کرنا تھا۔ پو پھٹنے تک بمشکل تین میل آگے بڑھ سکی۔

اس محاذ پر پاک فوج کے زیر کمان قوت صرف سات بٹالینوں پر مشتمل تھی اور محاذ 50 میل لمبا تھا۔ لاہور میں داخل ہونے کے لئے باٹا پورکے پل پر قبضہ ضروری تھا…. چنانچہ ایک پورے بھارتی بریگیڈ اور ایک ٹینک رجمنٹ نے دوسرا حملہ کیا۔ لاہور کو بھارتی یلغار سے بچانے کے لئے نہر بی آر بی کا پل تباہ کرنا بہت ضروری تھا۔ دن کو یہ کام نا ممکن تھا۔ دشمن نے پل کے دائیں بائیں گولوں کی بوچھاڑ کر رکھی تھی۔ پل تک دھماکہ خیز بارود لے جانے کی کوشش میں ایک جوان شہید ہو گیا۔ اس کے بعد چند رضاکاروں نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود ایک گڑھے میں اتارا۔ اس پر ریت رکھ کر آگ لگانے والی تاروں کو جوڑا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس آ گئے۔ ان کا واپس آنا ایک کرامت سے کم نہ تھا۔ یوں لاہور میں داخل ہونے کی بھارتی امیدیں منقطع ہو گئیں۔ اس کے بعد سترہ دنوں کے دوران بھارتی فوج نے تیرہ بڑے حملے کیے مگر ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔

باٹا پور سے شکست کھانے کے بعد بھارت نے بھینی کے محاذ پر دباؤ سخت کر دیا۔ یہ مقام باٹا پور سے سات میل شمال کی طرف واقع ہے۔ دشمن کا ارادہ تھا کہ وہ لاہور شہر کو ایک طرف چھوڑ کر بھینی کے راستے محمود بوٹی پر بند پر پہنچے اور وہاں سے راوی کے پل پر قبضہ کر کے لاہور کو راولپنڈی سے کاٹ دے۔ چنانچہ یہاں دشمن نے انیس حملے کیے اور تقریبا ڈیرھ ہزار گولے برسائے مگر ہر حملے میں منہ کی کھا کر پسپا ہو گیا۔ برکی سیکٹر پر دشمن نے ایک ڈویڑن اور دو بریگیڈوں کی مدد سے حملہ کیا۔ پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی اس پر ٹوٹ پڑی اور پورے نو گھنٹے تک دشمن کی یلغار روکے رکھی۔ دشمن نے دوبارہ صف بندی کرنے کے بعد حملہ کیا تو پاکستان کی ٹینک شکن رائفلوں اور توپخانوں کے گولوں نے دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ 10 ستمبر تک دشمن نے 6 حملے کیے جنہیں پسپا کر دیا گیا۔ 10 اور 11 ستمبر کی درمیانی شب دشمن نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ کیا۔ میجر عزیز بھٹی رات بھر دشمن کو روکے رہے۔ صبح کے قریب دشمن نے نہر کی طرف سے بھی گاو¿ں کو محاصرے میں لے لیا تو میجر عزیز بھٹی نہر کے مغربی کنارے پر آگئے، دشمن کو آگے نہ بڑھنے دیا اور وہیں21ستمبر جامِ شہادت نوش کیا۔

بھارتی ہائی کمانڈ نے قصور کی طرف پیش قدمی کامیاب بنانے کے لئے بھیکی ونڈ اور کھیم کرن کے نواح میں تقریبا دو ڈویڑن فوج صف آرا کی۔ اس محاذ پر ضلع لاہور کے سرحدی گاؤں بیدیاں کو پیش قدمی کے آغاز کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ اس رات یہاں پاکستانی فوج کی صرف ایک بٹالین موجود تھی۔ اگلے دفاعی مورچوں میں فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی صرف ایک کمپنی صف آرا تھی۔ یہاں دشمن نے چودہ بڑے حملے کیے مگر پاکستانی جوانوں نے انہیں ایک انچ آگے بڑھنے نہ دیا۔ قصور کے بعد دشمن نے کھیم کرن کے محاذ پر اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کیا۔ بھارتی فضائیہ بھی محاذ پر آ گئی مگر پاکستانی طیارہ شکن توپوں سے وہ جلد ہی پسپا ہو گئی۔ دشمن کے سات ٹینک تباہ ہونے سے اس کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ 8 ستمبر کو کھیم کرن پر پاکستان کا قبضہ ہو گیا۔

لاہور پر حملے کے چوبیس گھنٹے بعد بھارتی فوج نے تقریبا پانچ سو ٹینک اور پچاس ہزار فوج کے ساتھ سیالکوٹ پر اچانک حملہ کر دیا۔ پاکستان کی طرف سے صرف سوا سو ٹینک اور تقریبا نو ہزار جوان میدان میں آئے۔ بھارتی منصوبہ یوں تھا کہ پہلے جسٹر پھر سچیت گڑھ پر حملہ کیا جائے گا۔ ہر دو مقامات پر پاکستانی فوج الجھ جائے گی تو حملہ آور فوج درمیان سے گزر کر پسرور سے ہوتی ہوئی جی ٹی روڈ پر پہنچ جائے گی۔ جسٹر کے مقام پر پاک فوج نے صرف دو بٹالینوں کے ساتھ حملہ آور فوج کا نہایت دلیری سے مقابلہ کیا۔ ادھر سچیت گڑھ میں بریگیڈیر ایس ایم حسین نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ 7 اور 8 ستمبر کی درمیانی رات بھارتی فوج نے چونڈہ کے محاذ پر حملہ کر دیا۔ اس محاذ پر پیدل فوج کی دو بٹالین اور ایک آرمڈ رجمنٹ دشمن کے استقبال کیلئے موجود تھیں۔ جنگ کا میدان گرم ہوا تو پاکستان کے صرف تیس ٹینکوں نے بھارت کے ایک سو دیو ہیکل ٹینکوں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔

دشمن کا پروگرام 24 گھنٹے کے اندر چونڈہ سے آگے بڑھ جانا تھا مگر اب 72 گھنٹے بعد بھی وہ ایک انچ آگے نہ بڑھ سکا تھا چنانچہ وہ مزید طاقت لے کر میدان میں اتر آیا اور اس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی جنگ کا دوسرا بڑا میدان گرم ہوا۔ گولہ بارود سے فضا دھواں دھار تھی۔ پاکستانی ہیڈ کوارٹر نے حکم دیا تھا کہ جب تک آخری جوان باقی ہے اور ایک بھی گولہ موجود ہے چونڈہ کا دفاع کیا جائے۔ بھارتی جرنیلوں کے پاس تازہ دم فوج، ٹینکوں اور گولہ بارود کی کمی نہ تھی…. وہ سترہ ستمبر کو تازہ دم فوج میدان میں لے آئے اور چونڈہ کے مغرب میں ریلوے لائن سے سڑک کی طرف پیش قدمی شروع کر دی…. جہاں ہمارے افسر اور جوان گھات لگائے بیٹھے تھے۔ ٹینکوں کے انجن بند کر دیئے گئے تھے تاکہ دشمن کو ان کی موجودگی کا علم نہ ہو سکے۔ جب دشمن کی پوری جمعیت اپنی کمین گاہ سے نکل آئی تو انہوں نے فائرنگ کا حکم دے دیا۔ دشمن کے صرف 105 سپاہی زندہ بچے جنہیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔

پاک فضائیہ کے ایک اسٹار فائٹر ”ایف104” نے دشمن کا جہاز پسرور کے ہوائی اڈے پر اتار لیا اور اسکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔ 6 ستمبر کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو فضا میں بھی مڈ بھیڑ ہونے لگی۔ پاک فضائیہ کے دو اسٹار فائٹر نے دشمن کے چار طیاروں کا مقابلہ کیا اور ایک کو گرانے میں کامیاب ہو گئے۔ لاہور پر بھارتی فوج کے حملے کے بعد چھ طیارے فضا میں یکدم نمودار ہوئے اور پورے بیس منٹ تک دشمن پر بموں راکٹوں اور گولیوں کی بارش کرتے رہے۔ پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے کی تباہی نے بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اس کارنامے کے بھی سرخیل سجاد حیدر ہی تھے۔ انہوں نے نہایت نیچی پرواز کر کے دشمن کے بارہ جنگی اور دو ٹرانسپورٹ طیارے اڈے پر کھڑے کھڑے ہی تباہ کر دئیے اس کے علاوہ اڈے کو مزید کام دینے کے لئے ناکارہ بھی کر دیا۔

فضائی معرکے کا ایک قابل تحسین معرکہ ایم ایم عالم کا ہے۔ انہوں نے سرگودھا کے قریب ایک ہی جھڑپ میں دشمن کے پانچ طیارے گرا کر ریکارڈ قائم کر دیا۔ اس کے بعد بھارتی فضائیہ کو سرگودھا کی جانب جانے کی جرات نہیں ہوئی۔ 21 ستمبر کو سحر سے ذرا پہلے ونگ کمانڈر نذیر لطیف اور اسکواڈرن لیڈر نجیب احمد خان دو بی 57 بمبار طیارے لے کر آسمان کی وسعتوں میں نمودار ہوئے۔ انہوں نے دشمن کے ہوائی اڈے کو بموں کا نشانہ بنایا۔ دشمن نے بے پناہ گولہ باری کی مگر دونوں جوانوں نے کمال حوصلے اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا مشن پورا کر دیا۔

انبالہ کے دفاعی انتظامات کا غرور آن واحد میں خاک میں مل گیا۔ سترہ روز جنگ کے دوران پاکستان کے جرات مند ہوابازوں نے35 طیاروں کو دو بدو مقابلے میں اور 43 کو زمین پر ہی تباہ کر دیا تھا۔ 32 طیاروں کو طیارہ شکن توپوں نے مار گرایا۔ بھارت کے مجموعی طور پر 110 طیارے تباہ کر دیئے گئے۔ اس کے علاوہ ہماری فضائیہ نے دشمن کے 149 ٹینک’ 200 بڑی گاڑیاں اور 20 بڑی توپیں تباہ کر دیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے صرف 19 طیارے کام آئے۔ پاک فضائیہ کے ان عظیم کارناموں پر عالمی حلقوں کی طرف سے حیرت و استعجاب کا اظہار کیا گیا۔ جنگ ستمبر میں پاک بحریہ کو سمندری جنگ کے معرکوں میں جو برتری حاصل رہی ان میں معرکہ دوارکا قابل ذکر ہے۔ یہ معرکہ پاک بحریہ کی تاریخ میں یادگار حصہ بن چکا ہے۔

پاکستان کی تینوں مسلح افواج ہر محاذ پر برسرپیکار تھیں۔ ان افواج کو حوصلہ اور تقویت عطا کرنے میں پاکستان کی غیور عوام کا بھی نہایت اہم کردار تھا۔ وہ اپنی مسلح افواج پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیار تھے۔ جس کے باعث اتنی بڑی کامیابی ملی۔

آج وطن عزیز پھر جن حالات سے دوچار ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔ من حیث القوم ہمیں توبہ کی ضرورت ہے۔ ہم سب گناہوں میں اٹے ہوئے ہیں۔ اولا ہمارے ملک و قوم کو حکمرانوں کی آزمائش میں مبتلا کیا گیا۔ بعد ازاں سیلاب نے ہماری کمر توڑ دی۔ مگر آفرین ہے عوام کو جنہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں اپنے پاکستانی بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑا۔ رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر سب کی مدد کی جارہی ہے اور دل کھول کر مدد کی جارہی ہے۔ یہاں میں اس طبقے کو بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں سیلاب زدگان کا سب سے زیادہ تعاون کیا اور وہ مدارس و علماء کا طبقہ ہے۔ جنہوں نے اپنی سب کلفتیں پس پشت کرتے ہوئے سب سے پہلے پاکستان کا عملی مظاہرہ کیا۔ جی ہاں محتاط اندازے کے مطابق سیلاب زدگان کے ساتھ تعاون کرنے والے افراد کا 90 فیصد حصہ داڑھی اور ٹوپی والے لوگوں کا ہے۔ اس قومی دن کے موقع پر قوم کے ان افراد کو خراج تحسین پیش کرنا بھی از حد ضروری ہے۔

اسی طرح ہماری افواج جن کی ذمہ داری سرحدوں کی حفاظت ہے مگر ہمیشہ کی طرح اندرونی مسائل کے حل کے لیے بھی ہماری فوج پیش پیش ہے۔ سیلاب زدگان کی مدد کرنے میں ہماری افواج نے اس قوم کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ہر ممکن تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔

مگر افسوس ہوتا ہے ملک کی سب سے مقبول جماعت پی ٹی آئی پر جو اس مشکل وقت میں بھی اپنے اقتدار کی جنگ لڑی رہی ہے۔ شوکت ترین صاحب نے ملک کو دولخت کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔

ان مشکل حالات میں ضروری ہو گیا ہے کہ ایک بار پھر 1965 والے جذبے کے ساتھ دفاع وطن کے لئے ہم یک جاں اٹھ کھڑے ہوں۔ فوج اور عوام ایک ہی صف میں ہوں، عوام اندرونی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور فوج کو بیرونی سازشوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے فارغ کریں۔ اگر فوج اندرونی سازشوں ہی میں الجھی رہی تو کسی وقت بھی ملکی سالمیت خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے، اس لیے ابتدا ہم نے اپنے سے کرنی ہے اچھا اور محب وطن پاکستانی بن کر، پاکستان زندہ باد کی گونج بلند کر کے۔ وہی جرات اور بہادری، وہی عزم و استقلال اور وہی جہد مسلسل ہمارا زاد راہ ہونا چاہیے۔ یہی 6 ستمبر کا اصل پیغام ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں