تحریر/مولانا ڈاکٹر محمد جہان یعقوب



یومِ دفاع پر ملک بھر میں فوجی پریڈز اور ایونٹ منعقد کروائے جاتے ہیں، فوجی پریڈز میں تازہ ترین ٹیکنالوجیز کی نمائش کی جاتی ہے، کبھی کبھی نئے تیار شدہ اسلحے کی لانچ بھی اسی دن کی جاتی ہے۔ ان ایونٹس کا واضح مقصد ہمارے ہیروز کو یاد رکھنا اور ہماری فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ٹی وی چینلز اور الیکٹرانک، ڈیجیٹل و سوشل میڈیا بھی اس مقصد کے حصول میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔پاک فضائیہ کے طیارے آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے اپنے شہید ہیروز کو سلام پیش کرتے ہیں۔اسی طرح ہر سال یوم دفاع پر وطن عزیز کے لیے دعاؤں، سرکاری اور نجی سطح پر تقاریب ، افواج پاکستان کی پریڈ اور توپوں کی سلامی کے ذریعے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ دفاع وطن کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔
مگر افسوس کا مقام ہے کہ اگلے روز جب ہم سو کر اٹھتے ہیں تو ایک دن قبل کیے گئے وعدے اور دعوے بھول جاتے ہیں،پھر وہی کاروبارِ زندگی، وہی سیاست کی سیاہ کاریاں، وہی دولت کی ہوس، وہی اقتدار کی جنگ، وہی اغیار کی کاسہ لیسی، وہی غیروں کی غلامی، وہی ازلی دشمنوں سے دوستی ،وہی ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی پامالی،وہی افواج پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی؛ نیز ہر وہ کام جو دفاع وطن کے فلسفے کے خلاف اور شہدا کے مقدس خون سے غداری کے مترادف ہے، حب الوطنی کے لبادے میں کیا جاتا ہے۔ آئیے ایک لمحے کو رُک کر خود سے سوال کریں:
کیا اسی لیے شہدا نے اپنا خون، ماں نے اپنے جگر گوشے اور قوم نے اپنے سپوت قربان گاہ عشق میں وار دیے تھے؟ کیا ہم نے اسی لیے قربانیوں کی داستانیں رقم کی تھیں کہ پھر اسی دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے؟ کیا جرأت و بہادری کا یہی تقاضا ہے کہ ہم اسی ازلی وابدی دشمن کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائیں؟
اگر قیامت کے دن ان ماؤں نے ہمارا گریبان پکڑ کر سوال کر لیا کہ کیا اسی لیے ہم نے اپنے بیٹے وطن کے لئے واردیے تھے؟اگر شہیدوں نے پوچھ لیا کہ کیا ہم نے اسی مقصد کے لیے جانیں دی تھیں تو ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟
یوم دفاع کا پیغام
یوم دفاع ہم سے تجدید عہدِوفا کا مطالبہ کرتاہے : افواج پاکستان دفاع وطن کے لیے اندرونی اور بیرونی سرحدوں پر ڈٹی ہوئی ہیں۔پاک فوج سرحدوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی محاذ پر دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے ،جو خدانخواستہ اس پاک سرزمین کی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے کے درپے ہے ۔ہم سب مِل کر یہ عہد کریں کہ جب بھی پاکستان کو دفاع کی ضرورت پڑے گی تو پاکستان کا بچہ بچہ افواجِ پاکستان کے ساتھ مل کر وطن عزیز کا پورا دفاع کرے گا۔ آج بھی پاک فوج کو بطور قوم ہماری ضرورت ہے، قومی یکجہتی کی ضرورت ہے، ملک سے بیرونی عناصر کو نکالنے کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر ستمبر 1965 والے قومی و اجتماعی جذبے کی ضرورت ہے،کیونکہ دفاع وطن کے تقاضوں کو آج بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔یومِ دفاع ہمارے اس عزم کی تجدید کا بھی دن ہے کہ ہم ایک مضبوط قوم ہیں اور ہم کسی بھی غیر ملکی قوم سے ڈریں گے نہیں، چاہے وہ جتنی بھی مضبوط کیوں نہ ہو۔ہماری فوج ہمارے عظیم ملک پاکستان کی شجاعت اور حربی تکنیکوں کا مظہر ہے اور یومِ دفاع یہ سب کچھ یاد رکھنے کا دن ہے، تاکہ ہم مضبوط رہ سکیں اور اپنے ملک کے بچوں اور نوجوانوں کو درست پیغام دے سکیں۔یوم دفاع ہمیں درس دیتاہے کہ ہم ایک بار پھر اُسی جذبے کے ساتھ دفاع وطن کے لیے اٹھ کھڑے ہوں،وہی جرٔات اور بہادری، وہی عزم و استقلال اور وہی جہد ِمسلسل ہمارازاد ِراہ ہو۔ اس سے ایک طرف تو ہم بیرونی دشمن کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تقویت حاصل کریںاور دوسری جانب اندرونی مشکلات کا مقابلہ کرنے میں تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں،تاکہ ہماری طرف سے اٹھنے والا کوئی جذباتی قدم دشمن کو فائدہ نہ دے۔ ہم نے پاک وطن کے نظریات سے انحراف کیا تو دشمنوں نے ہر محاذ سے ہماری آزادی کو چیلنج کر دیا۔ آئیے مل کر عہد کریں کہ وطن عزیز پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے، اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر وطن عزیز کی فلاح اور دفاع کے لیے کردار ادا کریں گے اور اپنے قول و فعل سے کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے وطن عزیز کی آزادی وخودمختاری،وقارو عزت اور نیک نامی پر حرف آ ئے۔ وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو زندگی کی سب سے پہلی اور بڑی ترجیح بنا کر اس شعور کو اگلی نسلوں تک پہنچا ئیں گے۔