حفیظ چودھری

اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان کے زیر اہتمام لکھو ویب سائٹ کے پلیٹ فارم سے اب آپ بھی لکھیں
ساعت فیصلہ کن، مہلت مفقود، فرصت قلیل اور نتائج سامنے ہیں۔ اب آخری وقت ہے اور اگر مسلمانوں کو اپنی ہستی کی ضرورت نظر آتی ہے تو بغیر ایک لمحہ ضائع کیے انہیں آخری فیصلہ کرلینا چاہیے کہ ان کا فرض کیا ہے؟
یہ الفاظ تھے پاکستان کا نام رکھنے والے چودھری رحمت علی کے جو انہوں نے نوجوانان ہند میں جذبہ پھونکنے کے لیے کہے۔ سال 1947 کو وہ فیصلہ ہوچکا اور آزاد پاکستان کا پھریرا دنیا میں لہرادیا گیا۔
آج آزادی کے 75 سال گزرنے کے بعد کیا ہم وہ مقصد حاصل کرسکے؟ جس کے لیے یہ سب کیا گیا۔ کیا ہم ایک آزاد پاکستان کو واقعی آزاد بناسکے؟ آج پھر ضرورت ہے کہ ہم اپنے اس عہد کی تجدید کریں اور تمناؤں کا ہاتھ تھامے وقت میں پچھتر سال پیچھے سفر کریں اور اس وقت اور آج کے وقت کا موازنہ کریں۔
یوم آزادی کے اس پر مسرت موقع پر اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان کے زیر اہتمام لکھو ویب سائٹ کے پلیٹ فارم سے بذریعہ فیس بک کمنٹ 100 لفظی کہانی مقابلہ
بعنوان
”یوم آزادی اور تجدید عہد وفا“ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔
کہانی کمنٹ کرنے کی آخری تاریخ 13 اگست رات 10 بجے تک ہے
اس کے بعد کمنٹ کی گئی کہانی شامل مقابلہ نہیں ہوگی
کہانی ذاتی ہو، چوری شدہ نہ ہو
100 سے زائد الفاظ والی کہانی شامل مقابلہ نہیں ہوگی
ٹوٹل انعامات 6 ہوں گے ان شاءاللہ
3 مرد حضرات کیلئے اور 3 خواتین کیلئے
منصفین کا فیصلہ حتمی ہوگا
🔸انعام🔸
اول انعام:
اسلام میں عورت کا سماجی مقام و مرتبہ
(مؤلف مولانا محمد سلیم سواتی)
دوم انعام:
غفلت کے اسباب اور ان کا حل
(مؤلف محترم جناب شاکر فاروقی)
سوم انعام:
حرمین شریفین کا مسافر
(مؤلف مولانا محمد طاہر تنولی)
مزید تفصیلات کیلئے
0313/03336363979
وطن پاکستان اللہ کریم کی بہت ہی بڑی نعمت ہے۔الگ وطن حاصل کرنے کا مقصد یہ ہی تھا کہ مسلمان اس میں آزادانہ طور پر اللہ کی بندگی کر سکیں۔پھر چونکہ یہ وطن اسلام کے نام پہ بنا تو اللہ پاک نے ریاست اور وطن مل جانے کے بعد جو کام کرنے چاہیٸیں ان کی تفصیل یوں بیان کی ہے۔مفہوم۔(کہ یہ ایسے لوگ ہیں اگر ہم انیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قاٸم کریں’زکوٰة ادا کریں’لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں اور براٸ سے روکیں۔).لیکن بد قسمتی سے ہم نے بے ہودگی ۔ناچ گانے اور دیگر اللہ کی نا فرمانیوں کو آزادی ملنے کی خوشی تصور کر لیا ہے۔ہمیں چاہۓ کہ ہم ان خرافات کو ترک کر کے صرف 14اگست ہی نہیں پورہ سال اللہ کا شکر ادا کریں۔
جشن آزادی اور ہمارا انداز آزادی۔
آزادی کیا ہے؟؟؟؟
ہم بحثیت قوم اس سے مکمل نا آشنا ہیں۔۔اسکی بنیادی وجہ پاکستان کے حصول کا مقصد، اور لازوال قربانیوں کو بھول جانا ہے۔
اس وطن کی مٹی میں لاکھوں جانوں کا لہو شامل ہے
لاکھوں ماؤں ، بہنوں ، بچیوں، بزرگوں کے خون کے مقدس قطرے شامل۔ہیں۔
ان گنت دکھ، ازیتیں، تکالیف، اور ہجرت کی ایک سے بڑھ ایک المناک داستانیں شامل ہیں۔
دوسری طرف ہم ہیں کہ ہم نے چودہ اگست کا مقصد لاقانونیت، بد اخلاقی، عیاشی، ہلڑ بازی، ظاہری گلے سے اوپر وطن سے وفا کے دعوے تک محدود کر دیا۔
۔
ازادی کیا ہے؟؟؟؟
اس کو کیوں حاصل کیا؟؟؟
اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔
ہم آج کے روز شہدا کے نام پہ اپنا آپ دکھاتے ہیں،۔
فلاسفر بنتے ہیں۔
مگر واللہ ہم اس شہید کی روح کو تڑپا رہے ہوتے ہیں جب تیرہ اگست کی رات کو چوک میں ناچ ناچ کر گھنگرو بجاتے ہیں۔
اس وطن عزیز کو لاکھوں شہدا کے خون کے بعد 27 رمضان المبارک، بروز جمعۃالمبارک کو آزادی کی نعمت ملی۔
یہ محض اتفاق نہیں تھا۔۔
خدا نے اس سر زمین مقدس کو کسی خاص مقصد کے لیے عطا کیا۔۔۔
لاکھوں نوجوان بہنوں کی عزتیں، اور چادر ططہیر کی قربانی اس آزادی کا پیامبر بنی
یہ محض ایک کاغذی کاروائی یا زبانی اعلان نہیں کہ آج ہم شہدا کو یاد رکھ کر انکے ایصال ثواب کے بجائے اسلام کے نام بنے ملک میں اسلامی تعلیمات کے برعکس جشن منائیں۔
یہ قربانیاں سراج الدولہ سے لیکر سلطان ٹیپو شہید تک اور بہادر شاہ ظفر تک حریت و ازادی، غیرت اور حمیت کی لہو لہان داستانیں رقم ہیں۔
اسی لیے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ پاکستان اسی دن قائم ہو گیا تھا جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا۔۔۔
یعنی مسلمان کبھی اغیار کی حکومت تسلیم کرتا ہی نییں۔
مگر صد افسوس۔۔۔۔۔۔
آج ہم۔ازاد ہو کر بھی گوروں کے غلام بن چکے ہیں۔
اگر ہم گوروں کے غلام نہ ہوتے تو آج کے دن کہ جو ہماری بہنوں اور ماؤں کے خون کے قطروں، گردنوں کی قربانی ؛, بزرگوں کے سہاروں ، معصوم بچوں کی بدولت ملا۔۔۔۔
واللہ۔۔۔۔
ہم اس تاریخ کو بھول کر یوں ہم بازاروں، چوکوں ، چوراہوں میں، عوام کو ازیت دیکر ناچ ناچ کر نہ مناتے، ۔
ہم آج شکر کے سجدے میں گڑ گڑا رہے ہوتے ۔
ہمیں آج سوچنا ہوگا اور یہ جاننا ہوگا کہ کیا…
#ہم_زندہ_قوم_ہیں_؟؟؟
خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ان نعمتوں کی قدر کے مترادف ہے۔۔۔
ہم نے خدا کی نعمتوں کی ناقدری کی جسکا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔۔۔۔
آئیں بحثیت قوم عہد کریں۔۔۔
اے وطن ہر وہ کام کریں گے جس سے تیری عزت ہو۔
جس سے تجھے خوشحالی ہو
۔۔
عنوان: یوم آزادی اور تجدید عہد وفا
مصنف: محمد عباس ہزاروی
ایک دفعہ کاایک گاؤں میں ایک بوڑھا شخص رہتا تھا لیکن اس کے پاس ایک بکری اور ایک چھوٹی سی چھونپڑی تھی ایک دن اس سے کسی نے پوچھا کہ بابا جی !آپ اس چھوٹی سی چھونپڑی میں کیسے رہتے ہیں تو اس نے کہا کہ میری یہ بکری اور ایک چھوٹی سی یہ چھونپڑی ہی میرا سب کچھ ہے لیکن سب سے بڑی نعمت آزادی ہے کیوں کہ میں اس میں آزاد ہوں اورآپ لوگ بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں لیکن آزادی کی نعمت سے محروم ہیں ،پھر اس نوجوان نے سوچا کہ اگر ہم بھی اسی طرح اپنی خواہشات کو چھوڑ دیں توآزادی کی نعمت سے مالا مال ہو جائیں گے ۔