83

125 جنگوں کا ناقابل شکست جرنیل/تحریر/بلال احمد معاویہ اعوان

قوموں کی تاریخ تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ اسلام ہو یا دیگر مذاہب و اقوام کی تاریخ،مختلف اوقات و ادوار میں ایسے بہادر و شیر دل لوگ پیدا ہوئے جنہیں تاریخ نے اپنی دامن میں جگہ بخشی۔
ان فاتحین میں نپولین ہو یا سکندر اور تیمور۔ان کا شمار قابل قدر جرنیلوں میں ہوتا ہے، لیکن قارئین کرام! تاریخ میں ایسا جرنیل آپ کو نہ ملے گا جو 125 مسلسل جنگوں اور مہمات میں فریق مخالف سے زیر نہ ہوسکا۔
جی ہاں! چونک گئے ناں پڑھ کر۔آج ضرور اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو اپنے اسلاف کے روشن ماضی سے بہرہ مند کیا جائے۔
اس عظیم جرنیل کا نام اولو العزم شمشیر آزما،عظیم المرتبت مجاہد،اللہ کی تلوار سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہے
آئیے آپ رضی اللہ عنہ کی حیات و خدمات پہ اجمالی نظر ڈالتے ہیں
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تعلق قبیلہ بنو مخزوم سے تھا۔آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پہ جا کر حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کے والد ولید کا شمار مکہ کے رؤسا میں ہوتا تھا۔آپ رضی اللہ عنہ کے والد ولید کی آمدنی اس قدر خطیر تھی کہ اک سال بنو ہاشم مل کر غلاف کعبہ چڑھاتے اور ایک سال اکیلے ولید غلاف چڑھاتے تھے۔
دستور عرب کے مطابق سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی پرورش دیہاتی ماحول میں ہوئی جہاں آپ نے شمشیر زنی،گھڑ سواری،نیزہ بازی اور جنگی داؤ پیچ سیکھے۔آپ رضی اللہ عنہ بچپن سے ہی نہایت نڈر،دلیر اور زیرک شخص تھے۔
جوان ہو کر آپ کی شجاعت و بہادری کے جوہر کھل کر سامنے آئے اور آپ کا شمار قریش کے منتخب جوانوں میں ہونے لگا۔
ابن عساکر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ:
”بچپن میں ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کشتی لڑی۔سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پنڈلی کی ہڈی توڑ دی جو کافی عرصہ علاج کے بعد درست ہوئی“
قبول اسلام سے قبل غزوہ احد میں آپ رضی اللہ عنہ نے میدان کی صورتحال کو پلٹ کر رکھ دیا تھا۔جنگ احد کے بعد سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی اسلام دشمنی کا شہرہ دور دور تک ہونے لگا،لیکن صلح حدیبیہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کا دل اسلام کی جانب متوجہ ہوا۔
آپ رضی اللہ عنہ نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا جائزہ لینا شروع کیا۔اس سے قبل آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی ولید رضی اللہ عنہ حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے۔ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتایا گیا کہ خالد کا دل اسلام کی جانب متوجہ ہورہا ہے۔چنانچہ آپ کے بھائی نے آپ کو بذریعہ خط یہاں کے حالات لکھ کر مدینہ منورہ بلوایا۔آپ رضی اللہ عنہ مدینے پہنچے تو لوگ آپ کا انتظار کررہے تھے خیر آپ نے اسلام قبول کر لیا جس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر یہ الفاظ کہے
ترجمہ:”تمام تعریفیں اس خدا کے لیے جس نے آپ رضی اللہ عنہ کو اسلام کی طرف راغب کیا۔
آپ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے کفار پہ غشی طاری ہو گئی۔آپ کے ساتھ آپ کے معتمد خاص عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کر لیا جس سے مزید کفار کے ہاں صف ماتم بچھ گئی۔
قبول اسلام کے بعد آپ نے اپنی تمام صلاحیتوں کو دین اسلام کے لیے وقف کر دیا
مشہور غزوہ موتہ قبول اسلام کے بعد آپ کی پہلی اسلامی جنگ تھی،جس میں آپ کی تدبیر اور حکمت عملی سے مسلمانوں نے ایک لاکھ فوج پہ غلبہ پایا۔اسی جنگ میں آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں نو تلواریں ٹوٹیں۔موتہ سے فراغت کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے واپسی پہ اس قلعے کا محاصرہ کیا جس نے جاتے ہوئے تنگ کیا تھا بالآخر اسے بھی فتح کر کے بلاد اسلامیہ میں شامل کیا۔
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بعد خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنی صلاحیتوں سے گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب مسلمانوں نے حلب فتح کرنے کے بعد انطاکیہ کا رخ کیا تو ان دنوں شاہ روم ہرقل بھی انطاکیہ میں تھا اور اپنی آنکھوں سے رومن ایمپائر کا انجام دیکھ رہا تھا۔ہرقل پہ لشکر اسلام کا رعب طاری ہو چکا تھا چنانچہ اس نے اپنے تمام ہنرمند مشیروں اور جرنیلوں کو طلب کیا اور کہا
”مسلمان ملک شام پر قابض ہو رہے ہیں۔انطاکیہ شام کا آخری شہر ہے،جلد لشکر اسلام یہاں بھی آنا چاہتا ہے اگر یہ بھی ہاتھ سے چلا گیا تو سمجھ لو روم کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا۔لیکن مجھے تعجب ہے کہ اتنے وسائل کے باوجود ہمیں انہیں زیر کیوں نہ کر پا رہے“
یہ باتیں سن کر جبلہ ابن ایہم جو یرموک کی جنگ میں جان بچا کر بھاگ آیا تھا نے کہا
”اے بادشاہ ان کو منتشر کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کے خلیفہ کو قتل کر دیا جائے۔تمام سرگرمیوں کا مرکز وہی ہے“۔
بادشاہ نے کہا
”تب تک وہ ہمیں آن دبوچیں گے“
جبلہ ابن ایہم نے کہا
”ہم انہیں(مسلمانوں کو) خلیفہ کے قتل تک چھوٹی موٹی جنگوں میں الجھائے رکھیں گے“
یہ بات بادشاہ کو پسند آئی چنانچہ واثق نامی شخص کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوپہر کو درخت کے نیچے اینٹ کا ٹکڑا سر کے نیچے رکھے آرام کر رہے تھے۔واثق نے جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے لگا تو مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت سے کانپنے لگا اور اسلام قبول کر لیا۔
ادھر ہرقل نے فوج تیار کی۔ اس دوران لشکر اسلام انطاکیہ کے پہنچ گیا اور ہرقل کو اس وقت خبر ہوئی جب مسلمانوں نے آہنی پل پہ قبضہ کر لیا۔سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جنگی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے سالار لشکر سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ ہمیں یہیں پڑاؤ ڈالنا چاہیے اور کھلی جگہ کو جنگ کے لیے چھوڑ دینا چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کے مشورے کو مان لیا گیا۔
دوسرے دن لشکر صف آراء ہوئے۔رومیوں کا اک پہلوان بطورس میدان میں نکلا اور لشکر اسلام کو للکارا۔لشکر اسلام سے وامس ابو الہول نکلے۔کافی دیر جنگ کے بعد وامس کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی اور بطورس نے آپ کو قید کر کے اپنے رومی خیمے میں لے گیا۔پھر میدان میں پہنچا تو مسلمانوں کی جانب سے ضحاک رضی اللہ عنہ جو خالد رضی اللہ عنہ کے مشابہہ تھے مقابلے کے لیے نکلے۔رومی اپنے سورما کا حوصلہ بڑھا رہے تھے اس دوران بطورس کے خیمہ گر پڑا اور سپاہیوں نے وامس کو رہا کر دیا۔وامس نے دونوں رومی سپاہیوں کو قتل کیا۔پھر خیمے سے رومی پہلوان بطورس کی وردی پہنی،تلوار نکالی اور رومیوں میں چلے گئے۔یہاں انہوں نے جبلہ ابن ایہم کو دیکھا جو لشکر میں ٹہل رہا تھا۔وامس نے جبلہ پہ تلوار کا وار کیا اور گھوڑا دوڑا کر لشکر اسلام میں پہنچ گئے۔ادھر ضحاک رضی اللہ عنہ اور بطورس بھی تھک کر واپس اپنے اپنے لشکروں میں آگئے۔سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ وامس کی واپسی پہ نہایت خوش ہوئے۔
وامس کے فرار ہونے کے بعد اب ہرقل کو اپنی موت سامنے ناچتی دکھائی دینے لگی۔اس نے اپنے غلام بایس کو تاج پہنایا اور خود چپکے سے قسطنطنیہ روانہ ہو گیا۔
تیسرے دن لشکر دوبارہ صف آراء ہوئے۔سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مخالف لشکر میں گھس گئے اور صفوں کی صفیں صاف کرتے گئے۔لشکر اسلام نے اس قدر شمشیر زنی کی کہ ستر ہزار جہنم واصل ہوئے اور چالیس ہزار قید کئے گئے۔قیدیوں میں بادشاہ نما بایس بھی تھا باقی لشکر تتر بتر ہوگیا اور لشکر اسلام نے انطاکیہ کو فتح کر کے پورے بلاد شام پہ دین اسلام کا پرچم لہرا دیا۔
انطاکیہ کی فتح کے بعد پائیدار امن کے لیے سرحدی علاقوں کی فتح ضروری تھی۔ تاہم سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو دریائے فرات کی جانب مختصر لشکر دے کر روانہ کیا۔دشمن کو جب خالد رضی اللہ عنہ کے آنے کی خبر پہنچی تو مارے ڈر کے ہتھیار ڈال دیے۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ یہ علاقے فتح کر کے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے آملے۔
اسی طرح ایک لشکر میسرہ بن مسروق رضی اللہ عنہ کی قیادت میں روانہ ہوا تھا۔یہ مختصر سا لشکر پہاڑی علاقوں سے ہوتے ہوئے مرج القبائل کی وادی میں جا پہنچا۔سالار لشکر نے سوچا اگر کھلی جگہ پڑاؤ کیا تو یہ مختصر سی جماعت کچھ نہ کر پائے گی چنانچہ وہیں پڑاؤ ڈالا ادھر رومیوں کو پتہ چلا تو وہ مسلمان لشکر کی جانب بڑھے۔چنانچہ گھمسان کی لڑائی ہوئی لیکن ان بندگان خدا کی مختصر سی جماعت کفار کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی رہی۔کفار کا خیال تھا کہ وہ مسلمانوں کو مغلوب کر لیں گے لیکن ان لوگوں نے یہ عہد کیا کہ کسی صورت ہتھیار نہ ڈالیں گے۔
ادھر انہوں نے ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو قاصد روانہ کیا۔ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ یہ حالات سن کر کافی غمگین ہوئے اور جرنیلوں سے مشاورت کی۔خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا
”آپ مسلمانوں کی حالت سے ہرگز پریشان نہ ہوں۔میں ابھی فرات کی مہم سے واپس آرہا ہوں۔میرا دل کھول رہا ہے کہ وہ مجاہدین جو اسلام کی حفاظت کے لیے پیدا ہوئے تھے آج خون میں نہا رہے۔میں نے سنا ہے کہ انہوں نے تلواروں کے نیام توڑ ڈالے اور آخری دم تک لڑنے کا عزم کیا۔کاش میرے گھوڑے کو پر لگ جائیں اور میں وہاں پہنچ جاؤں“
سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تین ہزار جوانوں کو روانہ کیا۔اس سے قبل اک رومی پہلوان نے لشکر اسلام کو للکارا تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ مقابلے کے لیے نکلے جنہیں وہ رومی پہلوان گھوڑے سے کھینچ کر اپنے لشکر میں لے گیا۔ اس دوران دور سے جب مسلمانوں کو غبار اڑتا دکھائی دیا تو انہوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا قریب آنے پہ معلوم ہوا کہ خالدبن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے پہنچنے سے مسلمان خوشی سے نہال ہوگئے۔اس دن مزید جنگ نہ ہوئی۔خالد رضی اللہ عنہ ساری رات جنگ کی حکمت عملی تیار کرتے رہے۔دوسرے دن رومی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی آمد کا سن کر ڈر گئے اور صلح کا پیغام بھیجا۔
خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ
”ہماری شرطیں یہ ہیں کہ اول اسلام قبول کر لو،یا جزیہ دو یا تلوار جو کئی دن سے خون کی پیاسی ہے وہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلے کرے گی“
رومیوں نے سوچنے کے لیے اک دن کی مہلت چاہی چنانچہ خالد رضی اللہ عنہ نے انہیں مہلت دے دی۔دوسرے روز جب لشکر اسلام نکلا تو رومی کیمپوں میں بالکل خاموشی تھی وہ راتوں رات سب کچھ چھوڑ کر بھاگ نکلے۔یوں اک اور فتح خالد رضی اللہ عنہ کے نام ہوئی۔
اسی طرح جنگ یرموک میں خالد رضی اللہ عنہ نے دشمن کی ساٹھ ہزار کے مقابلے میں فقط ساٹھ مجاہد لے کر نکلے اور اس شان کے ساتھ فتح حاصل کی کہ دشمن دم دبا کر بھاگنے پہ مجبور ہوا۔
اپنے وطن سے دور،اغیار کے ملک میں،رومیوں اور ایرانیوں کے آہنی پوش لشکر کو شکست دینا بلاشبہ آپ کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اخیر زمانے میں جب ملک شام فتح ہوگیا تو جرات و بہادری کا یہ استعارہ،تاریخ کا عظیم جرنیل،اولو العزم شمشیر زن،جنگی علوم و فنون کا انسائیکلوپیڈیا،اللہ کی تلوار 18 رمضان المبارک کو شہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دارالفنا سے دارالبقا کی جانب روانہ ہوئے۔
بلاشبہ تاریخ اسلام میں آپ کا نام قیامت کی صبح تک ان الفاظ کے ساتھ یاد رکھا جائے گا کہ
”خالد رضی اللہ عنہ دنیا کا سب سے بڑا جرنیل تھا“

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں