83

15ستمبر یوم جمہوریت/تحریر/محمد عظیم فاروقی

دنیا بھر کے تقریبا 167 ممالک میں جمہوریت کا نظام رائج ہے اور بین الپارلیمانی یونین کے تحت ہر سال 15 ستمبر کو یوم جمہوریت کا دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے 2007 میں اپنے 62 ویں سیشن کے تحت ایجنڈا آئٹم نمبر بارہ کی قرارداد نمبر 62/7 کے ذریعہ یوم جمہوریہ کے دن کو منائے جانے کی قرارداد منظور کی اور سب سے پہلے یہ دن عالمی سطح پر 2008 میں منایا گیا۔ اس سال 2023 میں عالمی یوم جمہوریت کا دن سولہویں مرتبہ منایا جاے گا تاکہ دنیا بھر میں نظام جمہوریت کو مضبوط کیا جا سکے اور جو ممالک اس نظام کے ساتھ جوڑے ہوے ہیں ان کو تقویت پہنچائی جا سکے اور جمہوریت کو فروغ دیا جا سکے۔
اس موقع پر ضروری ہے کہ جمہوریت کو سمجھا جا سکے کہ جمہوریت کیا ہے اور یہ نظام دنیا میں کب سے رائج ہے۔
اگرچہ جمہوریت ایک انتہائی پیچیدہ اصطلاح ہے جس کی بہت سی تشریحات کی جاتی ہیں۔
جمہوریت کے لغوی معنی ’’لوگوں کی حکمرانی‘‘ Rule of the People کے ہیں۔ یہ اصطلاح دو یونانی الفاظ Demoیعنی ’’لوگ‘‘ اور Kratos یعنی ’’حکومت‘‘سے ماخوذ ہو کر بنا ہے۔ جس کے معنی ہیں عوام کی حکومت۔ جمہوری حکومت سے مراد ایک ایسی حکومت ہے جس میں اختیارات اور فیصلہ سازی کا منبع عوام ہوتے ہیں۔ عوام اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ انہیں کس طرح کا حکومتی، انتظامی، عدالتی، معاشی اور معاشرتی نظام پسند ہے۔ جمہوری نظامِ حکومت کی ایک شکل نمائندہ حکومت ہوتی ہے جس میں عوام اپنے نمائندے منتخب کر کے نظامِ حکومت انہیں سونپ دیتے ہیں۔
بعض مفکرین اس کی تعریف یوں بھی کرتے ہیں کہ لوگوں کی ’’اکثریت کی بات ماننا‘‘ لیکن درحقیقت یہ ’’اکثریت کی اطاعت ‘‘ کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی مفکر ہیروڈوٹس کہتا ہے کہ
جمہوریت ایک ایسی حکومت کا نام ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں
چنانچہ سابق امریکی صدر ’’ابراہم لنکن‘‘ کا یہ قول جو کہ جمہوریت کا نعرہ ہے ،اسی حقیقت کی عکاسی کرتاہے
عوام کی حاکمیت ، عوام کے ذریعے ، عوام پر
دراصل جمہوریت ایک سیاسی،سماجی ، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کا نام ہے۔ جمہوریت کے وضع کردہ اصولوں کی بنیاد پرکسی بھی حکومت، ریاست، معاشرے یا نظریے کی جانچ پڑتال کر سکتے ہیں کہ کیا وہ نظام یا نظریہ جمہوری ہے یا نہیں۔
آج کی دنیا میں اکثر ممالک جمہوری نظام سے منسلک ہیں باقی اس کے علاوہ بعض ممالک میں ڈکٹیٹر شب،بادشاہت اور بعض میں اشتراکی نظام راٸج ہیں
مجموعی طور پر اکثر و پیشتر ممالک میں جمہوری نظام ہی راٸج ہے اور یہ نظام صدیوں پرانا چلا آرہا ہے
کہتے ہیں کہ جمہوریت کا پہلا سراغ ہندستان میں ملتا ہے بدھا کی پیداٸش سے پہلے تقریبا چھ سو سال قبل از عیسوی ہندوستان میں جمہوری ریاستیں قاٸم تھیں
اور اس کو جانا پداس کہا جاتا تھا جس کی پہلی ریاست وشانی جو بعد میں بہار کے نام سے مشہور ہوٸی
یونانی دانشوروں کے مطابق سکندر اعظم کے دور میں 400 قبل از عیسوی sabaatai اور sabaracae کی ریاستیں موجود تھیں جو اب پاکستان اور افغانستان ہے یہاں بھی جمہوری حکومت تھی نہ کہ شاہی حکومت۔ اسی طرح پانچ صدی قبل از مسیح میں Greece میں بھی کونسل اور اسمبلی کا تصور ملتاہے۔ Jalius Cessar اور سینٹ کے سربراہ Ponpey کے درمیان خانہ جنگی کے بعد 49Bc میں پہلی دفعہ رومن ایمپائروجود میں آئی۔ اسی طرح تمام جمہوری ادارے ہمیشہ سے ہی جزوی اور محدود جمہوریت کے ساتھ انسانی تاریخ میں موجود رہے۔ اس سلسلے میں چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(۱) ہندوستان میں پنچائیت
(۲) جرمن قبائلی نظام(Tacitus)
(۳) فرینکش کسٹم آف مارچ فیلڈ
(۴) آل تھنگ آف پارلیمنٹ آئس لینڈ
(۵) توتھا سسٹم آف آئر لینڈ
(۶) قریش کا دارالندوہ (قصیٰ ابن کلاب)
یہ جمہوریت کی قدیم تاریخ ہے جو عام کتابوں میں ملتی ہے
دورہ جدید میں جمہوریت کی تاریخ کو دیکھا جاے تو اس میں تین بڑے عوامل کار فرما ہیں
نمبر ایک برطانوی پالیمانی نظام نمبر دو انقلاب فرانس اور نمبر تین صنعتی انقلاب
دور جدید کے نظام جمہوریت کی بنیاد انیسویں صدی میں رکھی گٸی تھی اس نظام جمہوریت نے صرف ایک صدی میں یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا
جمہوریت کا تصور ہیروڈوٹس کے زمانے سے موجود ہے اور مختلف یونانی فلاسفہ نے اپنی مختلف تشریحات پیش کی ہیں۔ ارسطو جو کہ اس نظام کے حق میں نہیں تھے وہ اسے ایک ایسے نظام کے طور پہ دیکھتا تھا جس میں کارِ حکومت ایک ہجوم کو تفویض کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس سیلی کے نزدیک جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر کسی کی شراکت ہوتی ہے یعنی یہ سب کی منشأ کا ترجمان ہوتا ہے۔ چرچل کے نزدیک آج تک جتنے بھی نظام آزمائے گئے ہیں جمہوریت ان میں سب سے بہترین نظام ہے اور کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار برٹرینڈ رسل نے بھی کیا ہے۔ اگر جمہوریت کی موجودہ قسموں پہ غور کیا جائے تو تین طرح کے جمہوری نظام سامنے آتے ہیں : خالص جمہوریت جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور سویڈن میں ہے، نیم جمہوریت جیسا کہ یوگو سلاویہ اور ہمارے مشرقی پڑوسی ملک میں ہے اور جعلی جمہوریت جو کہ مشرقی یورپ اور اکثر اوقات مملکتِ خداداد میں پائی جاتی ہے لیکن بعض کا کہنا ہے کہ کہ جمہوریت دنیا کا بدترین نظام حکومت ہے، لیکن ان نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک آزمائے جا چکے ہیں۔ یہ الفاظ سر ونسٹن چرچل کے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم رہے۔ تب سے آج تک اس قول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور جمہوریت کی اچھائیوں برائیوں کو پرکھنے کے بعد بھی دنیا میں سب سے مقبول نظام حکومت جمہوریت ہے
یاد رہے پاکستان میں یوم جمہوریت کے نام سے سرکاری سطح پر1947سے لیکر 1958 تک 23 مارچ کو یوم جمہوریہ یا ریپبلک ڈے کےطور پر۔منایا جاتا تھا لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے یہ طے کیا گیا کہ طیاروں کے ذریعے بڑے شہروں میں ایسی پرچیاں گراٸی جاٸیں جس میں یوم جمہوریہ مبارک کا پیغام لکھا ہوا ہو پھر جب اکتوبر 1958 کے مارشل لإ کے بعد 23 مارچ کا دن قریب آیا تو کابینہ میں فیصلہ کیا گیا کہ 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کے بجاے یوم پاکستان کے نام سے منایا جاے گا مارشل لإ کے بعد 1956 کا آٸین منسوخ ہو جانے کی وجہ اس دن کو تبدیل کیا گیا جبکہ اس سے پہلے 14 اگست کو یوم پاکستان کے طور پر منایا جاتا ہے
پھر 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کے دن کو یوم پاکستان کانام دیا گیا اور چودہ اگست کو یوم پاکستان سے یوم آزادی کے دن کا نام دیا گیا
مارشل لاء ختم ہوجانے کے بعد 1962 اور 1973 کے آٸین کے تحت پاکستان ریپبلک ہی رہا لیکن 23 مارچ بدستور یوم پاکستان کے نام سے ہی منایا جاتا رہا اور اب تک اسی مناسبت سے منایا جاتا ہے
پاکستان کے نظام جمہوریت کا خاکہ :
پاکستان میں بھی موجودہ نظام بھی پارلیمانی جمہوری نظام ہے جس کا آٸینی نام جمہوریہ پاکستان ہے
جس سے سیاست آٸین پاکستان کے داٸرے میں رہ کر ہی کی جاسکتی ہے
عدلیہ ،قانون ساز ادارے اور پارلیمان میں طاقت تقسیم ہے پاکستان میں مرکزی حکومت وفاقی ہے جو صوباٸی حکومتوں کے ساتھ ملکر فیصلے کرتی ہے
اس پارلیمانی نظام میں صدر پاکستان کا انتخاب عوام کی بجائے منتخب پارلیمان کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ صدر مملکت ہے جو پاکستان کی افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے۔ وزیر اعظم جو انتظامی امور کا سربراہ ہوتا ہے، پارلیمانی اکثریت سے منتخب کیا جاتا ہے۔صدر پاکستان اور وزیر اعظم کا انتخاب اور تعیناتی بالکل جدا پہلو رکھتے ہیں اور ان کے دور حکومت کا آئینی طور پر آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے
پاکستان کا آٸین
آئین پاکستان وفاق اور صوبائی حکومت کی تشکیل کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل90 سے 100 تک وفاقی حکومت کی ساخت جبکہ 129 سے لے کر 140 تک کے آرٹیکلز صوبائی حکومتوں کی ساخت بیان کرتے ہیں۔ 90 کے مطابق
” آئین کے تابع وفاقی حکومت کے عاملانہ اختیارات صدر کے نام سے استعمال کیے جائیں گے جو وزیراعظم اور وفاقی کابینہ پر مشتمل ہوگی، جو وزیراعظم کے ذریعے کام کرے گی جو وفاق کا چیف ایگیکٹیو ہوتا ہے۔
اسی طرح صوبائی حکومتوں کے بارے میں آرٹیکل 129 بیان کرتا ہے کہ
” آئین کے تابع صوبائی حکومت کے عاملانہ اختیارات گورنر کے نام سے استعمال کیے جائیں گے جو وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ پر مشتمل ہوگی، جو وزیراعلی کے ذریعے کام کرے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں