کہتے ہیں کوئی بھی چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے ۔ کہ اسے کوئ منفی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے یا مثبت کاموں کے لیے۔ لیکن کرہ ارض پر ایک ایسی قوم بھی موجود ہے جس میں افراد کی اچھی یا بری فطرت(اگر اسے ڈیجیٹل فطرت کہیں تو بے جا نہ ہوگا) کا پتا اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے چلتا ہے۔
اور عرف عام میں اس قوم کو پاکستانی قوم کہا جاتا ہے۔میرے خیال سے سوشل میڈیا کو باہمی روابط، مسائل سے آگاہی ،اور عوامی اظہار خیال کے لیے بنایا گیا تھا لیکن ہم کسی بھی چیز کا دنیا سے منفرد استعمال ایجاد کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ اپنی اسی منفرد خوبی کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی سوشل میڈیا کو اپنے دکھ درد،خوشی غمی ، روزانہ کے موڈاور اپنی زندگی میں ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات سے دنیا کو آگاہ کرنے کا کام بڑے فخر سے انجام دے رہے ہیں ۔ ہم حقیقت پسند نہیں بلکہ الفاظ پسند اور مفروضہ پسند قوم ہیں ہمیں کڑوی حقیقت کی جگہ میٹھا جھوٹ پسند ہے ،عمل کی جگہ شئیر کرنا پسند ہے اور حقیقت میں اچھا بننے کی بجاۓ اچھے اچھے کمنٹ کرنا پسند ہے۔ ہماری حالت بلکل چابی والے کھلونے جیسی ہو گئ ہے جس کو چابی لگائیں تو وہ کچھ دیر تک تماشا لگا کہ سکونت اختیار کر لے گا جب تک اس کو دوبارہ چابی نہیں لگائ جاتی۔ اور ہماری سب سے بڑی چابی سوشل میڈیا ہے ۔ملک میں اگر کوئ مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو چند دن ہم اس کو اتنا سنجیدہ لیتے ہیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے اتنی سفارشات سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ہر پاکستانی دانشور اور مشیر خاص نظر آتا ہے لیکن جیسے ہی کچھ وقت گزرا تو سب پہلے کی طرح نارمل ہو جاتے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا ۔ کسی انسانی ہمدردی کے عمل پر بنی ایک ویڈیو پر لاکھوں اچھے کومنٹس دیکھنے کو ملیں گے مگر ان لاکھوں کمنٹ کرنے والے لوگوں میں سے شاید ہی کوئ ہو جو اپنی عملی زندگی میں بھی انسان سےویسی ہی ہمدردی رکھتا ہو ۔ دنیا میں جس بھی قوم نے ترقی کی ہے اور اپنی اخلاقیات کو دنیا کے لیے نمونہ بنایا ہے وہ اپنی عملی زندگی میں ذمہ دار اور با اخلاق ہیں حتیٰ کہ وہاں سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی پابندی ہے مگر ایک ہم ہیں جن کو لگتا ہے اچھی پوسٹس،کمنٹس اور اچھی پوسٹس کو لائیک کر دینے سے ملک خوشحال ہو گا ، عمل کرنے کی بجاۓ شئیر کرنے سے ثواب ملے گا اور شئیر نہ کرنے سے آئیندہ کچھ گھنٹوں میں کوئ بری خبر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور مجھے سب سے زیادہ حیرت ان لوگوں کی ذہنی سطح پر ہوتی ہے جنہوں نے اتنی درد بھری پوسٹس لگائ ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ دنیا جہان کے سارے غموں نے ان کے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے اور ان کا واحد مقصد تسلی کے چند الفاظ کمنٹ سیکشن میں دیکھنا ہوتا ہے اور اگر وہ الفاظ کسی دوشیزہ کے ہوں تو سونے پہ سہاگا ہے ۔ اللہ سے اور لوگوں سے معافی پوسٹ لگا کر مانگ رہے ہوتے ہیں اور مقدس مہینوں میں ہمارے اندر موسمی مومن جاگ اٹھتا ہے جو مقدس مہینہ گزرتے ہی پھر سے سو جاتا ہے ۔ صرف وقت کے ایک مخصوص دورانئے میں خود کو پرہیزگار بنانا خدا کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ ہر وقت عورت اور مرد، فرقہ ، سیاست ، سائینس اور معاشرتی مسائل پر لا حاصل نتیجہ بحث جاری رہتی ہے ۔ سوشل میڈیا پر معافی نامہ بھیجنا ، درد بھری آپ بیتی لکھ کر مفت کی ہمدردیاں بٹورنا، موسمی مسلمان بننا ، اور لا حاصل نتیجہ بحث کرنا اس قوم کی ذہنی طور پر انتہائی بچگانہ ہونے کی نشانی ہے ۔ اس بات میں کوئ شک نہیں کہ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے کئ مسائل حل ہوۓ ہیں اور ہوتے ہیں لیکن اکثر پاکستانیوں کا سوشل میڈیا کو منفرد طریقے سے استعمال کرنا ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے ۔ جس دن یہ قوم عملی زندگی میں اتنی سنجیدہ اور ہمدرد بن گئ جتنی سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے اسی دن سے اس ملک کے اچھے دن شروع ہو جائیں گے ۔ حقیقت پسند بنیں ،خود کو کسی کے الفاظ کے سہارے نہ چھوڑیں، اپنی عملی زندگی میں اسلام کو مکمل نافذ کریں، لا حاصل نتیجہ بحث سے بچیں، اپنے دکھ درد صرف اس کے سامنے پیش کریں جو دکھ درد دور کرنے والا ہے ، خود کو اتنا فرشتہ صفت بنائیں جتنا سوشل میڈیا پر کمنٹس میں ہیں، تب ہم ایک مثالی قوم بن سکتے ہیں ۔
