83

آئیے! لکھنا سیکھیے/تحریر/عبدالرؤف چوہدری ،چیچہ وطنی

لکھنا ایک فن ہے اور یہ فن ذرائع ابلاغ میں سب سے زیادہ مؤثر ہے۔ذرائع ابلاغ میں دو چیزیں زیادہ معروف ہیں ’’تحریر‘‘ اور ’’تقریر‘‘۔ان دونوں میں’’ تحریر ‘‘دیر پااور مؤثر ہوتی ہے کیونکہ انسان کی لکھی ہوئی تحریر بسا اوقات صدیوں موجود رہتی ہے اور مختلف ذرائع سے وہاں تک بھی پہنچ جاتی ہے جہاں تک خود انسان کا پہنچنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ تحریر کے مقابل’’ تقریر ‘‘وقتی ہوتی ہے اور تقریر سے وہی لوگ بہرہ ور ہوسکتے ہیں جو آپ کی تقریر سنیں۔تقریرزبان سے الفاظ کی ادائیگی کا نام ہے جو منہ سے نکلتے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ تحریر کتابت کا نام ہے اور تقریر کلام کا نام ہے ۔کتابت کا وجودکئی زمانوں تک موجود رہتا ہے جب کہ کلام کا وجود الفاظ کے ادا ہوتے ہی منہدم ہوجاتا ہے۔
’’لکھنا‘‘ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کی خواہش اورشوق ہے مگر صحیح معنوں میں رہنمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر نوجوان اس کش مکش میں اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر لیتے ہیں کہ ’’میں کیسے لکھ سکتا ہوں۔لکھنا میرے بس کی بات نہیں یہ کوئی اور مخلوق ہے جو لکھناجانتی ہے وغیرہ‘‘۔یہ تمام باتیں جو میرے عزیز نوجوان دوستوں کے ذہن میں پیدا ہوتی ہیں ایک ’’وہم ‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔کوئی بھی کام کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھانا مشکل ہوتا ہے اور ایسے ہی مشکل ہوتا ہے جیسے بچے کے لیے ابتداء میں چلنامشکل ہوتا ہے، مگر بچہ حوصلہ نہیں ہارتا گرتے گرتے ایک دن آتا ہے کہ وہی بچہ دوڑنے لگ جاتا ہے۔لہذا اگر آپ لکھاری بننا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو قلم تھام کر قلم کی نوک کو کاغذ کی پشت پر چلانا پڑے گا۔
لکھنے کے بعدذہن میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسا لکھا گیا ہے پتا نہیں کسی کو پسند آئے گا یا نہیں؟ کوئی پڑھے گا یا نہیں؟ اگر پڑھیں گے تو پڑھ کر کیا کہیں گے وغیرہ ۔تو یاد رکھیے!ہر کام میں بہتری درجہ بدرجہ آتی ہے۔یہ نامی نیٹ جتنے بھی لکھاری آج بلندی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں یہ ’’ماں کے پیٹ‘‘ سے لکھاری بن کر نہیں آئے بلکہ محنت کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ شیر خوار بچے کے عزم کو سامنے رکھتے ہوئے آپ بھی لکھنا شروع کریں۔پھر لکھیں ۔بار بار لکھیں اگر آپ نے ہمت نہ ہاری تو ایک دن آئے گا کہ آپ کا نام ’’میدان صحافت‘‘میں نمایاں نظر آئے گا۔
اگر آپ نے عزم مصمم کر لیا ہے کہ میں نے واقعی لکھاری بننا ہے تو اول فرصت میں ’’دو‘‘ کام کیجیے جو اس فن میں مہارت کے لیے پہلی سیڑھی کی حیثیت رکھتے ہیں اور منزل کے حصول کے ذریعے بھی ہیں۔پہلا کام: مطالعہ سرکل بنائیے اور آج سے ہی پڑھنا شروع کر دیں کیونکہ مطالعہ لکھاری کے لیے ایسے ہی ضروری ہے جیسے: جسم کے لیے روح،زندہ رہنے کے لیے غذا، آگ کیلیے تپش اور سورج کے لیے روشنی ضروری ہے۔ایک شیڈول بنا لیں کہ میں نے فلاں وقت اتنے صفحات کا مطالعہ کرنا ہے ۔پھر اس میں سستی مت کیجیے بلکہ مستقل مزاجی کا مظاہرہ کریں ۔
لکھاری کے پاس الفاظ اور معلومات کا ذخیرہ ہونا ضروری ہے اوریہ دونوں چیزیں مطالعہ سے حاصل ہوتی ہیں۔دوران مطالعہ ایک ڈائری اور قلم اپنے پاس رکھیں۔جو چیز قابل نقل ہو یا کسی بھی لحاظ سے فائدہ مند ہو اسے فوری نوٹ کر لیا جائے۔ نوٹ کرنے کے دو طریقے ہیں۔ اگر کتاب آپ کی اپنی ملکیت ہے تو کتاب پر ہی اس عبارت کو ہائی لائٹ کر لیا جائے اورشروع کتاب میں عنوان اور صفحہ نمبر نوٹ کر لیا جائے ۔اگرکتاب ذاتی ملکیت نہیں ہے تو اپنے پاس موجود ڈائری پر با حوالہ نوٹ کر لیا جائے۔مطالعے کے ساتھ ساتھ مشاہدہ بھی معلومات کے حصول کا ذریعہ ہے اس سے بھی خوب استفادہ کیا جائے۔ چلتے پھرتے پیش آنے واے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے اور اپنی سوچ کے دائرہ کار میں جگہ دے کر سوچا جائے کہ اس واقعے کوالفاظ کی مالا میں کیسے پرویا جا سکتا ہے۔
مطالعہ اور مشاہدہ کے بعد اپنے پڑھے ہوئے کو لکھنا ضروری ہے۔روزانہ جتنا مطالعہ کریں مطالعہ کے بعد ذہن میں ایک خاکہ بنا کر اس مطالعے کو لفظوں کی لڑی میں پرو کر کاغذ کی پشت پر ضرور اتاریں کیونکہ پڑھنے کے بعد لکھنا انتہاری ضروری ہے ورنہ آپ ساری زندگی بھی پڑھتے رہیں،دنیا جہان کی کتابیں کھنگال لیں مگر آپ کو لکھنا تبھی آئے گا جب لکھیں گے ۔ لکھنے کا بہترین وقت وہ ہے جب آپ کے ہاتھ میں قلم آجائے۔آپ ایک لمحہ کے لیے سوچیے اگر مولانا ابوالکلام آزادؒ اس انتظار میں بیٹھے رہتے کہ انہیں احمد نگر کی جیل سے رہائی ملے گی ،ایک وسیع وعریض لائبریری میسر آئے گی ،آرام دہ بستر نصیب ہوگااور صاف ستھرا کمرہ دستیاب ہوگا تو پھر ہی وہ قلم اٹھائیں گے۔ اس صورت میں ہم ’’غبار خاطر‘‘ جیسی بے مثال اور معرکۃ الآراء کتاب سے محروم ہوجاتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں