
تحریر کی دُم ویسے تو آخر میں درج کی جاتی ہے، لیکن کیا کریں یہ المیہ ہی ایسا ہے کہ اس کی دُم سے ہی آغاز ناگزیر ہے، اور وہ یہ ہے کہ حسیناؤں کی محبت سے نکلنا بہت آسان ہے لیکن سانسوں کے بغیر جینا ممکن نہیں۔ ساسوں کی خبریں عام ہیں لہذا ہمارا لکھا لفظ سانسوں دوبارہ پڑھیں، ورنہ آپ بھی ساس ازم کا شکار ہو جائیں گے۔ دراصل آج کے جدید دور میں انٹرنیٹ ہماری سانسوں سے کم اہمیت نہیں رکھتا، ذرا سی دیر کو اس کا روٹھنا اچھے خاصے ہنستے ہنساتے، مسکاتے، لکھتے ہوئے شرماتے انسان کو وینٹی لیٹر پر پہنچا دیتا ہے۔ لیکن اب کی بار تو حد ہو گئی، انٹرنیٹ کی بندش ہوئی اور وہ بھی کئی ایام کے لیے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسا لگا جیسے ہم اکیسویں صدی سے اٹھ کر سیدھا لوسی (Lucy) کے دور میں جا گرے ہوں، اب جن احباب کو لوسی کا تعارف نہیں ان کو بھی اسی انٹرنیٹ کی مدد حاصل کرنا پڑے گی۔ الغرض ہم انٹرنیٹ کو آج تک فقط معلومات کے حصول کا مؤثر اور تیز ترین ذریعہ تصور کرتے تھے، لیکن چند دن کی اس بندش نے ثابت کیا کہ ہمارے کھانے کا نظامِ انہضام، نیند کا شیڈول، دل کا قرار اور رُوح کا سکون تک فراہم کرنے میں انٹرنیٹ کا بہت بڑا اشتراک ہے۔ حتی کہ زبان سے کھانے تک کا ذائقہ چھن جاتا ہے، کان جو ہمہ وقت نوٹیفکیشن کی دھن کے عادی ہوتے ہیں انہیں شجر و حجر کی تسبیحات سنائی دیتی ہیں۔ مختصر کہا جائے تو ہماری زندگیاں ہم سے زیادہ انٹرنیٹ کی عادی ہیں۔ مجھے اس بندش پر سب سے زیادہ فکر ان نبّا نبّی پارٹی کی تھی جن کے بابو کا کھانا پینا، سونا جاگنا، رونا ہنسنا سب ایک دوسرے کے میسجز پر منحصر ہوتا ہے۔ حتی کہ اگر جسم کے کسی بھی حصے پر کوئی کانٹا چبھ جائے تو جب تک نبّا نبّی کی پھونک کا میسج نہیں آتا تب تک آرام نہیں ملتا۔ میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ شہر کی مصروف ترین شاہ راہوں پر بڑے بڑے اشتہار آویزاں کروں کہ سر درد، کمر درد، آنکھوں میں درد، تھکاوٹ، محبوب کا ناں ماننا، رشتے میں بندش کا حل، حتی کہ محبوب کو قدموں میں لائیں صرف نبّا نبّی کی ایک پھونک پر۔ ان سسروں نے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کو انگشتِ بہ دندان کیا ہوا ہے جو لاکھوں روپے لگا کر ڈاکٹر بنے اور یہ کل کے گلی محلے کے لپاڑے اور شپارٹر پھونکوں سے اپنے محبوب کا علاج کرنے لگ گئے۔ خیر تو بات ہو رہی تھی انٹرنیٹ کی، یقین کیجیے انٹرنیٹ آج کے دور کی سپر پاور ہے، وہ افراد جو اس بندش سے پہلے کمبل میں سر چھپائے ایک ہونٹ کو کاٹتے مسکرا رہے ہوتے تھے، انہیں عینی شاہدین نے بندش کے بعد “مرنے کے بعد کیا ہوگا” کتاب پڑھتے دیکھا ہے۔ ویسے یہ رویہ ان کا غلط نہیں واقعتاً ایک ایسی جگہ کی تیاری کرنا حق ہے جہاں باہمی رابطے میں اس سے بھی کہیں زیادہ بل کہ کلی انقطاع ہوگا۔ انٹرنیٹ کی بندش سے بہت سی ایسی لڑکیوں کے راز بھی کھلے جن کی کوکنگ اسکلز یوٹیوب سے وابستہ تھیں، اب اس بندش کے باعث ایک ماہیلا کے اجوائن کی جگہ سنامکھی کا پاؤڈر ڈالنے کا واقعہ سنا، جس کے بعد آدھا دن بیڈ سے بیت الخلا کے درمیان ایک دن میں ہی 3 کلومیٹر کی واک ریکارڈ ہوئی۔ ویسے تو یہ ریکارڈ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن سکتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر زیادہ حق دار تو از خود وہ دوشیزہ ہیں جنہوں نے یوٹیوب کی بنیاد پر آج تک اپنے عزیزوں کو بنائے رکھا، اب کیا بنائے رکھا؟ اس کی تشخیص آپ اپنی ذمے داری پر کیجیے۔ کچھ شواہد سے پتا چلا ہے کہ بہت سے رشتے صرف اس بنا پر ٹوٹے ہیں کہ آپس میں ایک دوسرے کو آنکھ بھر کر دیکھ لیا گیا ہے، حتیٰ کہ ایک گواہی کے مطابق ایک بیوی نے تو اپنے شوہر کو پہچاننے سے انکار کر کے گھر سے نکال دیا، کہنے لگی میرا شوہر تو اتنا کالا ہو ہی نہیں سکتا، تو اسے سمجھایا گیا کہ بی بی تم نے اپنے شوہرِ نامراد، اوہ سوری! شوہرِ نام دار کو آخری مرتبہ دولہے کے روپ میں نائی سے فیشل کروائے دیکھا تھا، اس کے بعد کبھی آنکھ موبائل سے ہٹا کر دیکھا ہو تو یاد ہو، لیکن قیامت تب ٹوٹ پڑی جب شوہر نے بھی بیوی کو یہ کہہ کر پہچاننے سے انکار کر دیا کہ میری شادی تو 22 سالہ دوشیزہ سے ہوئی تھی ناں کہ اس کی پیدائش کے وقت موجود اِس دائی سے۔ یہ تو وہ چھوٹے موٹے کیس ہیں جو عوامی سطح پر ریکارڈ ہوئے، اس کے علاوہ جو مالی نقصان ہوا وہ الگ ہے، ایک خاتونِ خانہ نے اپنی سہیلی کو پڑوس میں ایک میلاد کی دعوت کا وائس میسج سینڈ کیا، انٹرنیٹ کی بندش کے باعث میسج چار دن بعد ڈلیور ہوا، میسج سنتے ہی وہ صاحبہ اپنے 9 عدد فوجی دستے کے ساتھ آموجود ہوئیں، تب پتا چلا کہ آج تو میلاد کا تیسرا بھی ادا کر دیا گیا ہے، اب رکشے کو دیے گئے پیسوں کا نقصان پورا کرنے کے لیے اپنی سہیلی کے گھر دھما چوکڑی ڈال دی، سہیلی نے اس قدرتی آفت کو بھگتایا اور پھر ہمیشہ کے لیے سہیلی کو بلاک کر دیا، یوں ایک اور رشتہ تباہ ہوا۔ خیر بہت سے لوسی لوگوں نے اس بندش کا فائدہ بھی بہت اٹھایا، مثلاً دفتر، رشتے داروں، دوستوں اور دیگر اقارب کے کام یہ کہہ کر ٹرخا دیے گئے کہ “اجی نیٹ کی سروس نہیں تھی، اس لیے بروقت کر ناں پایا”۔ تو میرے عزیزو! انٹرنیٹ جہاں آدمیت کو جدید دنیا میں باہمی رابطے، ارتباط اور تیز ترین مواصلاتی نظام کی سہولت فراہم کرتا ہے، وہیں غیر شعوری طور پر اپنی عادت کا زہر بھی انڈیلتا جا رہا ہے۔ ہم انٹرنیٹ کی مصنوعی دنیا کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اب ہمیں حقیقت ہی ایک تصنع اور خواب لگتا ہے، ہمیں اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، ہر عمل میں ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی ایسی لت لگ چکی ہے کہ ہمارا اس مصنوعی دنیا کے بغیر جینا محال ہو چکا ہے۔ حالیہ انٹرنیٹ کی بندش کے اسباب و محرکات ہمارا موضوع نہیں، لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے اثرات بہ ظاہر بہت خطرناک ثابت ہوئے ہیں، لوگوں میں چڑچڑا پن، ڈپریشن، اور یاسیت اس قدر دیکھی گئی جو شاید کسی اور وجہ سے ناں دیکھی گئی ہو۔ ہمیں اس مصنوعی دنیا کی رنگینیوں سے نکل کر اور حقیقی دنیا کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اپنے اسکرین ٹائم کو کم کرکے رشتوں، اور دلوں کو قریب کرنا ہوگا۔ یہ وقتی آسائشیں ہمیں وقتی راحت تو فراہم کر سکتی ہیں، لیکن ہماری صحت، ذہنی سلامتی اور معاشرتی قرب کو تہہ نہس کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ انٹرنیٹ کی بندش سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں، انہیں کم کرنے کا فقط ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے انٹرنیٹ کو ضرورت کی حد تک محدود رکھنا، عادت ناں بنانا، اس کی عدم دست یابی کو جان کا روگ ناں بنانا، یہ امر مشکل تو ہے ہی، لیکن ناممکن نہیں، پہلی کوشش کے طور پر تخلیقی کتب کا مطالعہ شروع کیجیے۔