مرکز معمر افراد وہ ادارہ ہے جہاںجملہ سہولیات زندگی اور صحت و تندرستی کا خیال رکھتے ہوئے ضعیف العمر یا بزرگ افراد کی مناسب دیکھ بھال کی جاتی ہے ،ان کو پیرانہ سالی میں سہارا دیا جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق اس طرح کے اداروں کی ابتدا سب سے پہلے یورپ سے ہوئی جہاں سائنسی ترقی کے نام پر مادیت پرستی نے معاشرے میں ڈیرے ڈالے اور اقدار کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ دراصل سائنسی ترقی نے انسان کو کائنات مسخر کرنا تو سکھا دیا لیکن معاشرے میں باہم مل جل کر جینا نہ سکھا سکی نتیجتاً انسان معاشرتی و اخلاقی اقدار سے محروم ہوتا گیا ۔اس ترقی کا سب سے پہلا کامیاب حملہ خاندانی نظام پر ہوا جس سے وہ تباہ و برباد اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ گیا ۔
دنیاوی ترقی و خوشحالی کے نام پر انسان نے ہر وقت کام ،کام ، دولت کے لیے مشینوں کی طرح کام کرنا شعار بنا لیا یعنی دھن دولت ،مادہ پرستی کے چکر میں ایسا چکرایا کہ اپنی جان سے پیارے رشتوں، والدین اور اولاد تک کو ٹھکرانا شروع کردیا ۔جس کی وجہ سے اس کے پاس اپنے خاندان ، رشتہ داروں کے لیے بھی وقت نکالنا دوبھر ہوگیا ۔ کام کاج کی بے انتہا مصروفیت کی وجہ سے بال بچوں کی پرورش و دیکھ بھال کی فکر سے آزاد ہونے کے لیے انھیں دیکھ بھال کے مراکز میں دن بھرکے لیے چھوڑ نا اس کے نزدیک عام سی بات ٹھہری ۔ چناں چہ ان مراکز پر بچے والدین کی شفقت و محبت سے دور اکیلا رہنا سیکھ لیتے ہیں ، ان کے اندر سے باہم پیار محبت ،رشتوں کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ ان کے دل میں یہ بات جا گزین ہو جاتی ہے کہ یہ سب رشتے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔
یہی بچے جب بڑے ہو کر عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو وہ بھی اپنے والدین کی طرح دنیا کمانے میں اس قدر مصروف و مستغرق ہو جاتے ہیں کہ ان کے پاس بھی والدین کے لیے وقت نہیں ہوتا ۔ان کے اندر سے احساس محبت و مروت تو بچپن میں( والدین سے دور رہنے کی وجہ سے ) مر چکا ہوتا ہے لہذا وہ اپنے والدین کو بلا جھجک معمر افراد کے مراکز میں داخل کر وا کر بے فکری سے دنیا کی گہما گہمی میں کھو جاتے ہیں ۔
چناں چہ معاشرے سے آہستہ آہستہ خاندانی نظام کی شکست و ریخت بام عروج پر پہنچ گئی اور مردوزن کی اکثریت بچوں کی پیدائش و پرورش کی خواہش سے خود کو عاری اور بری الذمہ سمجھنے لگی۔ان سے دنیا میں آنے والے بچے بھی بڑے ہو کر جہاں دل چاہتا اڑان بھر جاتے ، والدین ان کی خبر لیتے نہ وہ والدین کی خبر لیتے ۔یوں مادر پدر آزاد معاشرہ وجود میں آتا گیا جہاں رشتوں کے بجائے دنیا کی دھن دولت کو زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی جس سے بچوں نے بھی والدین کو بڑھاپے میں بوجھ سمجھنا شروع کر دیا اور انھیں بزرگوں کے مراکز میں داخل کروانے لگے اور یہ معاشرتی سرگرمی آہستہ آہستہ باقاعدہ طور پر مغربی تہذیب کا حصہ بن گئی ۔
مغرب سے یہ لعنت یا قبیح عمل ترقی کی حشر سامانیوں کے ساتھ مشرق میں پہنچا جہاں سے اس کی رسائی پاک و ہند میں ہوئی ۔ یہاں کی مضبوط معاشرتی و اخلاقی اقدار کی بدولت اسے ابتداً کوئی خاص توجہ اور پذیرائی نہ ملی ۔ لوگ اس کے نام تک سے واقف نہ تھے اگر کہیں سے سنتے بھی تو اس کے بارے شدید نفرت کا اظہار کرتے تھے ۔
مگر جیسے جیسے ترقی و خوشحالی آتی گئی اقوام و ملل کے رابطے اور باہم میل جول بڑھتا گیا تو ایک دوسرے کی تہذیب و معاشرت نظریات و اقدار سے بھی اثر انداز ہونے کا عمل تیز تر ہو گیا ۔چناں چہ مشرق میں بھی معاشرتی و اخلاقی اقدار میں واضح تبدیلی آنا شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں بعض لوگوں کے نظریات ، خیالات ،احساسات بھی بدلنے لگے اور اس طرح سے اس ناسور نے بھی ان کے قلب و ذہن میں جگہ بنا لی ۔خاص طور پر گزشتہ چند دہائیوں سے نو دولتی اور ہر دو ذرائع (حلال ، حرام ) سے دولت کمانے والا گروہ ہماری مشرقی روایات و اقدار کو دقیانوسی کہنے اور سمجھنے لگا ہے ۔وہ جدت و ترقی کے نام پر اس لعنت کو بخوشی قبول کرتا اور جائز سمجھتا ہے جس کی وجہ سے یہ مراکز ہماری تہذیب و معاشرت کا ایک حصہ بننا شروع ہو گئے ہیں ۔
مرکز معمر افراد (اولڈ ایج ہوم ) میں لوگ اپنے بزرگوں کو کیوں چھوڑ آتے ہیں یا داخل کروا دیتے ہیں اس کی بہت سی معاشی و معاشرتی وجوہات ہیں ۔
(۱) بعض اوقات بزرگ افراد لا ولد ہوتے ہیں ،ان کا کوئی اپنا (بیٹی ،بیٹا ) نہیں ہوتا جو ان کو بڑھاپے میں سنبھالے اور دیکھ بھال کرے ۔قریبی عزیز رشتہ دار مفت کی تکلیف ،مشکل اور خرچ برداشت کرنے کے قائل نہیں ہوتے ۔اس طرح سے وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے ایسے بزرگوں کو مرکز معمر افراد داخل کروا دیتے ہیں ۔
(۲)بعض افراد نے ساری عمر شادی نہیں کی ہوتی ۔اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے زندگی کی ساری رعنائیاں نثار کی ہوتی ہیں اور جب خود بڑھاپے کو پہنچتے ہیں تو وہی بہن بھائی ان کی دیکھ بھال سے کنارہ کشی کرلیتے ہیں جن پہ سب کچھ قربان کردیا ہوتا ہے ۔سب دیکھ بھال کی بھاری ذمہ داری سے بچنا چاہا رہے ہوتے ہیں اور آخر فیصلہ کر دیتے ہیں کہ اپنے اس محسن کو مرکز معمر افراد چھوڑ آئیں ۔
(۳)بعض بزرگوں کی نرینہ اولاد نہیں ہوتی اور بیٹیاں بیاہ کر پیا گھر سدھار چکی ہوتی ہیں ان کا سسرال ان کے بوڑھے والدین کے لیے اپنے دل اور گھر میں کوئی جگہ نہیں رکھتا ۔لہذا ایسے افراد کو بیٹیاں تنہائی اور کسمپرسی کی حالت سے بچانے کے لیے ان مراکز میں داخل کرو ا کر مطمئن ہوتی ہیں ۔
(۴)ہمارے ملک میں بعض گھرانے ایسے بھی ہیں کہ خاندان کے تمام بڑے افراد ملازمت پیشہ ہیں ۔بہو بیٹا سب ہی کسی نہ کسی محکمہ میں کام کرتے ہیں انھیں اپنے بچوں کے لیے بھی آیا کا انتظام کرنا پڑتا ہے ۔ بزرگ افراد یعنی والدین کو تو زیادہ توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے جسے آیا پورا نہیں کر سکتی اس لیے وہ کام پر پرُ سکون انداز میں جانے کے لیے والدین کو نہ سنبھال سکنے کے جھنجٹ سے بچنے کے لیے انھیں ان مراکز میں داخل کروا دیتے ہیں ۔
(۵)بڑھاپے میں عموما ً انسان کو بیماریاں بھی گھیر لیتی ہیں۔ اکثر بزرگ بہت سی اور شدید بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ اولاد معاشی و معاشرتی لحاظ سے کمزور ہونے کی بنا پر یا کاروباری اور دیگر مصروفیات سے ان کی تیمارداری کے لیے وقت نہ نکال سکنے کی وجہ سے انھیں ان مراکز میں چھوڑ آتے ہیں
(۶)والدین ہمیشہ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ دن رات محنت کر کے انھیں اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں۔ انھیں خوشحال اور پروقار زندگی گزارنے کے لیے بیرون ملک بھیجنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں لیکن یہی بچے بیرون ملک جا کر دولت کے سمندر میں ایسے غوطہ زن ہوتے ہیں کہ واپس نکلنے کا نام ہی نہیں لیتے ۔حتی ٰ کہ بوڑھے والدین کو نوکروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں یا پھر ان مراکز میں داخل کرو ا کر خود باہر ہی آباد ہو جاتے ہیں ۔ ان کے بعد والدین ان کی جدائی میں ناگفتہ بہ حالت میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہوتے ہیں ۔
(۷) ہمارے ملک میں ایک قلیل تعداد ان والدین کی بھی ہے جو اپنے بچوں کی شادی بیاہ کر کے انھیں علیحدہ گھروں میں آباد کر دیتے ہیں اور خود ان سے الگ رہنا چاہا رہے ہوتے ہیں یا بچوں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں ۔ایسے میں ان میں ایک دنیا سے چلا جائے تو دوسرے کی خبر گیری اور دیکھ بھال کے لیے اولاد آپس میں الجھ رہی ہوتی ہے جب کہ دیگر عزیز رشتہ دار تو پہلے ہی جائیداد و دولت پر نظر رکھے ہوتے ہیں چناں چہ ایسے بزرگ افراد کی دیکھ بھال سے جان چھڑانے کے لیے بھی فیصلہ ان مراکزمیں داخل کروا دینے کا ہی ہوتا ہے ۔
(۸)ایک سب سے اہم اور بڑی وجہ آج کی جدید ، آزاد خیال اور مغرب زدہ خواتین ہیں جو اپنے شوہر کے والدین کو گھر میں رکھنا ، ان کی خدمت اور دیکھ بھال کرنا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتیں ان کی موجودگی اور دیکھ بھال کو بوجھ سمجھنے لگتی ہیں ۔ جب کہ شوہر بھی اس مشینی دور میں معاشی جدل کے لیے اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس اپنی ذات کے لیے وقت بہت کم ہوتا ہے بجائے کہ والدین کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت نکال سکیں اور اس طرح وہ ان کو اولین ترجیح نہیں دے پاتے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ خواتین اپنے شوہروں کو اکسا کر یا ان کی ذہن سازی کر کے بزرگوں کو گھر بدر کر کے ہی چین محسوس کرتی ہیں ۔
(۹) ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہم مغربی ترقی کی چکا چوند کو دیکھتے ہوئے بلند معیار زندگی کے لیے سب کچھ کرنے، ہر جائز ناجائز طریقہ اختیار کرنا شروع ہوگئے لیکن اخلاقی گراوٹ کا اس قدر شدید شکار ہورہے ہیں کہ اپنے عزیز ترین رشتوں مربی والدین سے بھی منھ موڑنا شروع کر دیا ہے حالاں کہ انھی ماں باپ کی تگ و دو کے نتیجے میں ہمارا مستقبل محفوظ اور کامیاب ہوا ہوتا ہے ۔ وہ اولاد کی ایک ایک خواہش کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر چکے ہوتے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ جب یہی والدین بڑھاپے کو پہنچتے ہیں تو اس کامیاب اولاد کو بوجھ لگنے لگتے ہیں ۔ والدین تو کثیر العیال ہونے کے باوجود دس بارہ بچوں کو پال پوس لیتے ہیں لیکن یہی دس بارہ بچے والدین کونہیں سنبھال پاتے، یہ انسانی بے وفائی و خودغرضی کی انتہا ہے ۔
(۱۰)بزرگوں کی خدمت سے عاری ہونے کی وجوہات میں سے سب سے اہم وجہ ہماری دین سے دوری ہے۔ مشرقی روایات و اقدار اور ہمارا دین تو ہمیں ہر حال میں والدین کی خدمت و اطاعت کا درس دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بعد یہ سب سے اہم فریضہ ہے ۔ مگر ہمارے معاشرے کی ایک خاصی تعداد اول تو دین کے احکامات سے نا بلد ہے اگر جانتے بھی ہیں تو اس حکم کو ترقی و خوشحالی، روشن خیالی کے شوق میں ، سائنس و ٹیکنالوجی کی رونق افروزیوں میں جان بوجھ کر فراموش کر دیتے ہیں ۔ہمارا دین تو ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ
؎ سب سے بڑی سعادت ہے ماں باپ کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے ماں باپ کی خدمت
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حکم کے ساتھ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری ، خدمت اور ان سے حسن سلوک کے بارے میں واضح احکامات ہیں ۔ جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے ’’اور تمھارا پروردگار فرماتا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو اگر ان میں ایک یا دونوں تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہو اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو ۔‘‘
اسی طرح سورۃ الاحقاف میں حکم ہے کہ’’ ووصینا الانسان بوالدیہ احسانا اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا ۔‘‘اللہ کی ذات کے بعد انسان پر سب سے زیادہ احسانا ت والدین کے ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالٰی نے اپنی شکرگزاری کے ساتھ والدین کی شکر گزاری کابھی حکم دیا ہے’’ ان اشکرلی والدیک ۔۔۔۔میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو تمھیں میری طرف لوٹ کر آنا ہے ۔‘‘(سورۃ لقمان )
انسان دنیا میں مال و دولت کماتا ہے اور اسے مختلف کاموں میں خرچ کرتا ہے اسلام کی رو سے والدین پر خرچ کرنا سب سے بہتر خرچ ہے ۔ والدین پر خرچ کرنے کو اولین ترجیح دی گئی سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ قل ما انفقتم من خیر فللوالدین فرما دیجیے کہ جو چاہو خرچ کرو لیکن جو مال خرچ کرنا ہو (سب سے بہتر ہے ) والدین پر خرچ کرو ۔‘‘
اسی طرح احادیث نبویﷺ میں متعدد احکام والدین کی خدمت و اطاعت کے بارے میں موجود ہیں ۔ آقا ﷺ نے والدین کی خدمت و اطاعت ، فضیلت وعظمت متعدد احادیث میں بیان فرمائی تاکہ معاشرے میں مضبوط خاندانی نظام قائم رہے اور بزرگوں کو جب سہارے کی ضرورت ہو تو اولاد دل و جان سے ان کی خدمت کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوارے اور بزرگ افراد بھی بڑھاپے میں دوسروں کے دست نگر نہ ہوں بل کہ اپنی اولاد ہی ان کا سہارا بنے وہ اپنی زندگی کا آخری مشکل دور اپنوں کے پیارومحبت میں پر سکون انداز میں گزار سکیں ۔
احادیث میں والدین کی خدمت کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے اور جو والدین کی خدمت نہیں سے کرتے ہیں ان کے لیے سخت وعید سنائی گئی ہے اسے گناہ کبیرہ کہا گیا ہے ۔ بخاری شریف میں ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ بڑے گناہوں میں سے یہ ہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین سے بد سلوکی کرنا ۔ اسی طرح مسلم شریف میں نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ وہ شخص ذلیل ہوا، ذلیل ہوا ،ذلیل ہوا جس نے والدین کا بڑھاپا پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکا ۔
جو اولاد ماں باپ کی خدمت نہیں کر تی ان سے بد سلوکی کرتی ہے ان کی نا فرمانیاں کرتی ہے ان کی دنیاوی زندگی بھی ذلیل و خوار ہو کر گزرتی ہے اور آخرت بھی خراب ہوتی ہے ۔یہ دنیا مکافات عمل ہے آج اگر ہم والدین کو ستائیں گے تو کل کو ہماری اولاد بھی ہمیں تگنی کا ناچ نچائے گی اور روز آخرت بھی اللہ فرمائے گا اسے دوزخ میں ڈال دو مشکوۃ شریف میں آقا ﷺ کا ارشاد ہے ماں باپ کو ستانے والا کبھی جنت میں داخل نہ ہوگا ۔
؎ ماں کے قدموں میں ہے جنت ماں کے قدموں کو سلام
والدین دنیا کی سب سے عظیم نعمت اور ہماری جنت ہیں اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے تاکہ اولاد کے دل میں ماں کی محبت جا گزین ہو ۔وہ ماں باپ کی خدمت کو اپنے لیے عزت و افتخار کا باعث جانے نا کہ بوجھ سمجھے ۔اگر ہم ان کی اس دنیا میں قدر کر لیں ان کی اطاعت و فرماں برداری کریں تو ہمیں یہ دنیا بھی جنت جیسی لگے اور آخرت میں بھی جنت میں اعلیٰ مقام نصیب ہوگا ۔
؎ ماں باپ سی نعمت کوئی دنیا میں نہیں ہے حاصل ہو یہ نعمت تو جہاں خلد بریں ہے
چند دہائیاں پہلے پاکستان میں اولڈ ایج ہوم کا تصور نا پید تھا لیکن مغرب کی دیکھا دیکھی اب یہاں بھی سرکاری اور نجی طور پر بنے اولڈ ایج ہوم نظر آتے ہیں ۔پنجاب کے محکمہ سماجی بہبود (سوشل ویلفیئر) کے مطابق پنجاب میں نصف درج کے قریب اولڈ ایج ہوم کر کرہے ہیں جب کہ تقریبا دس ادارے نجی انتظامیہ کے تحت چل رہے ہیں ۔اسی طرح سندھ میں بھی سینئر سیٹیزن ایکٹ کی شق ۸ کے تحت ہر ضلع میں اولڈ ایج ہوم قائم کیے جا رہے ہیں ۔
ہمارے ملک میں بعض لوگ مغربی اولڈ ایج ہوم کی تقلید میں تمام تر دینی ، معاشرتی اور اخلاقی نقصانات کے باوجود اسے ایک نعمت تصور کرنے لگے جب کہ یہ ہمارے مشرقی معاشرتی نظام کے لیے ایک سم قاتل سے کم نہیں ۔ اسے جائز سمجھنے والے اس بات کو نہیں دیکھتے کہ ہمارے ہاں بزرگ شہریوں کے سماجی بہبود کا کوئی باقاعدہ ، با ضابطہ اور فعال نظام مفقودہے جب کہ یورپ میں اس کا با ضابطہ اور پوری طرح فعال نظام ہے جس سے یہ ادارے چلائے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں بھی ایک غالب تعد اد اس کام کو غلط اور غیر مناسب سمجھتی ہے ۔ ان کے اس نظام کی تقلید میں اندھے پیچھے کنویں میں گرنے والی بات ہے ۔
اب پاکستان میں بھی خصوصاً شہری علاقوں میں یہ بات عام ہے کہ اولاد اپنے بوڑھے ماں باپ کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتی انھیں ان مراکز میں داخل کروا دینے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں ۔ایک جائزے کے مبطابق شہروں میں زیادہ امیر طبقے میں شدید بیمار، بوڑھے اور لاغر والدین کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آنے کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ البتہ دیہات میں ہماری دینی و مشرقی روایات مضبوط ، قائم اور کافی حد تک زندہ ہیں ۔ لوگ غریب ،ان پڑھ ،مفلوک الحال ہونے کے باوجود اپنے بوڑھے والدین کا آخری دم تک خیال رکھتے ہیں ۔ اپنا سب کچھ بیچ کر، دائو پر لگا کر بھی ان کی خدمت ، علاج معالجہ اور دیکھ بھال صدق دل سے کرتے ہیں ۔
ان سب حوصلہ افزا حقائق کے باوجود اس ناپسندیدہ رجحان کا ہمارے معاشرے میں جگہ پانا یقیناً تردد کی بات ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تعلیم عام ہونے کے باوجود نئی نسل میں تربیت کا فقدان ہے مغربی اور لادین افکار کے حصول کے بعد بچوں میں والدین کی خدمت و اطاعت اور دیگر رشتہ داروں کے بارے مروت، ادب و احترام گھٹتا جا رہا ہے۔جس کی وجہ سے ان میں والدین کی نافرمانی اور ان سے بد سلوکی کا منفی رجحان نمایا ں نظر آنے لگا ہے ۔
شاید اسی لیے پاکستان میں والدین کے ساتھ ناروا سلوک ، نافرمانی اور گھر سے نکال دینے کے رجحان کو روکنے، کم کرنے کے لیے قانون ساز اداروں نے تحفظ والدین ایکٹ (پیرنٹل پروٹیکشن ایکٹ ) ۲۰۲۱ء منظور کیا ہے جس کے آرٹیکل ۸۹ کے تحت اعلیٰ عدالت نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت والدین کو گھر سے نکالنا جرم قرار دیا ہے جو کہ ایک مستحسن قدم ہے ۔اس ایکٹ میں والدین کے تحفظ کے لیے اور بھی بہت سی شقیں رکھی گئی ہیں تاہم ان سب پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے تاکہ بڑھاپے میں والدین کو دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں ۔
اس کے علاوہ پاکستان میں غیر سرکاری اداروں سے سبکدوش ہونے والے بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے اولڈ ایج بینیفٹ ایکٹ بھی منظور کیا گیا ہوا ہے ۔ اس کے تحت بزرگ شہریوں کو مالی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔ اس ایکٹ پر عمل درآمد میں کافی سارے نجی ادارے لیت ولعل سے کام لیتے ہیں لہذا اس قانون پر بھی سختی سے عمل درآمد کروانا چاہیے۔
والدین کو اولڈ ایج ہوم میں بھیجنے والوں کو ایک بار یہ بات ضرور سوچنی چاہیے کہ ماں باپ کی خدمت کرنے سے جنت کی ضمانت ملتی ہے ، رزق اور عمر بڑھتی ہے، دلی سکون کی زندگی نصیب ہوتی ہے اور اس خدمت سے محرومی اور انکار کی وجہ سے ہم نا صرف آخرت میں جنت سے محروم ہو جائیں گے بل کہ یہ فانی دنیا تمام تر عیش سامانیوں ، دولت و ثروت کے انبار سے مزین ہونے کے باوجود ایک بے سکون جہاں بن کر رہ جاتی ہے اس میں کوئی برکت نہیں ہوتی ، قلبی سکون ہر وقت غارت رہتا ہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اس دنیا کو ترقی و خوشحالی سے جنت بناتے بناتے اپنی اصل جنت جو خدمت والدین سے ملنی تھی اسے کھو بیٹھتے ہیں ،یہ بات ہم ذہن سے نکال چکے ہوتے ہیں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے ہم نے بھی ایک دن بوڑھا ہونا ہے ہم آج جو سلوک ( نافرمانی ، بد سلوکی ، گھر سے نکالنا ، اولڈ ایج ہوم چھوڑنا وغیرہ ) اپنے والدین سے کر رہے ہیںکل کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے اس سے بھی بد تر ہمارے ساتھ ہوگا کیوں کہ دنیا کے اکثر اعمال کا بدلہ ہمیں دنیا میں بھی ملنا ہے اور آخرت میں بھی ان کا حساب دینا ہے ۔
اولڈ ایج ہوم یقیناً ہمارے معاشرے کے لیے ایک ناسور ثابت ہور ہے ہیں وہاں جملہ سہولیات کے باوجود بزرگوں کی کسمپرسی میں گزرتی ،سسکتی زندگی دیکھ کر انسان کا کلیجہ پھٹنے کو آتا ہے یہ بزرگ اپنوں کی آواز ، دید اور پیار کے لمس کو ترس رہے ہوتے ہیں ۔ انسان ایک دن کے لیے کسی کام کی غرض سے ہی گھر اور اپنوں سے دور چلا جائے تو ذہنی و قلبی لحاظ سے اس قدر ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے کہ اسے گھر واپس پہنچ کر ہی چین و سکون محسوس ہوتا ہے۔ ذرا سوچیے بڑھاپے میں پہنچے افراد کو تو گھر کے آرام و سکون اور اپنوں کے پیار کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جب انھیں گھر سے نکال دیا جاتا ہے، اپنوں سے دور کر دیا جاتا ہے تو وہ جملہ سہولیات کے باوجود اپنوں کے بغیر کس قدر اذیت ناک احساس سے لمحے گن گن کر گزارتے ہیں یہ ان کا دل ہی جانتا ہے ۔ یہ اپنوں کی چاہت ،پیار کے اس قدر ترسے ہوتے ہیں کہ کسی اور کی زبانی ان کی خیریت کی خبر سن کر ہی ان کے چہرے خوشی دمک اٹھتے ہیں ۔
مگر صد حیف کہ ہم اس قدر بے حس اور بے مروت ہوتے جا رہے ہیں کہ معاشرے میں ہونے والے کسی بھی ظلم ،زیادتی یا درد ناک واقعے سانحے پر تڑپ کر رہ جاتے ہیں لیکن خود کس قدر ظالم ہیں کہ اپنے ہی والدین کے ساتھ درندوں سے بھی بڑھ کر سلوک کر رہے ہیں ۔ سائنسی تحقیق کے مطابق بھیڑیے جیسے خونخوار درندے بھی اپنے بوڑھے والدین کا خیال رکھتے ہیں تو کیا ہم ان درندوں سے گئے گزرے ہیں ،اس قدر اسفل ہو گئے ہیں کہ اپنے والدین کا خیال نہیں رکھ پاتے اور انھیں اولڈ ایج ہوم چھوڑ آتے ہیں ۔
ماں کا عالمی دن ،باپ کا عالمی دن منا لینے سے والدین کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو سکتا ۔ ہم کیسی احمقانہ سوچ رکھتے ہیں کہ جنت کے متلاشی ہیں اس کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں حتیٰ کہ جنت کے حسین تصور پہ خود کو بم سے اُڑا دینے والے بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں ، اپنے پیر و مرشد کے مرید بننے ، بیعت ہونے ، راضی کرنے کے لیے تن من دھن قربان کرنے کو پھرتے ہیں لیکن شاید یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہماری جنت ہمارے سامنے ، پاس موجود ہے ہم اس کی خدمت کر کے اسے حاصل کرنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کرتے ۔اپنی جنت کو خود اپنے پیروں تلے روندتے پھرتے ہیں اسی طرح اپنے گھر میں موجود سب سے بڑے پیروں (والدین)کی بیعت اور خدمت کو عار سمجھتے ہیں ان سے جی کتراتے ہیں ۔
معاشرے سے اولڈ ایج ہوم کی لعنت ختم کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اولڈ ایج ہوم جیسے اداروں کی حوصلہ شکنی کرے انھیں قائم کرنے کے بجائے نوجوان نسل کی دینی اور اخلاقی تربیت کا اہتمام کرے ۔ ملک بھر میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو بھی نصاب کا ایک لازمی عنصر بنایا جائے ۔اس کے علاوہ تحفظ والدین ایکٹ میں مزید ترامیم کرکے اسے والدین کے حق میں اور زیادہ بہتر اور فعال بنایا جائے ۔ والدین کی خدمت کرنا اولاد پر فرض ہے اس سے غفلت کو جرم قرار دیاجائے اس کی سخت سزا مقرر کی جائے ۔ اولاد پر لازم کر دیا جائے کہ جب والدین بوڑھے ہو جائیں تو ان کو اپنی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ سب بچے دینے کے پابند ہوں تاکہ انھیں بڑھاپے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو ۔اس کے علاوہ سب بچے والدین کی دیکھ بھال ،علاج معالجہ کے ذمہ دار ہوں ،انھیں گھر بدر کرنے کی سخت سزا ہو ۔
اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ ملک کے بزرگ شہریوں کے لیے صحت کے نظام میں خاص سہولیات اور مراعات رکھی جائیں تاکہ اولاد کو والدین کے علاج معالجے کے لیے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
علما کرام کو اس سلسلہ میں اپنا مثبت کردار نبھانا چاہیے کہ وہ اپنے خطبات میں خدمت و اطاعت والدین کی فضیلت و عظمت بیان کریں اور والدین کی نافرمانی ،ان سے بد سلوکی کا کیا انجام ہوتا ہے اس سے آگاہ کریں تاکہ نئی نسل کی ذہن سازی ہوتی رہے اور ہم اس لعنت کو اپنے ملک میں بڑھنے سے روکنے میں کامیاب ہو سکیں ۔
بہت زیادہ طویل تھی
موضوع میں نعمت یا لعنت
ویسے بھی لعنت یہ لفظ غیر مناسب ہے