آج ایک وڈیو دیکھی جو پانچ منٹ کی ہو گی اس میں ایک عام پاکستانی کو زندگی اور سانس کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیئے درکار انتہائی ناگزیر 11 شعبوں میں سے صرف ایک شعبہ یعنی بجلی استعمال کرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔۔
قیام پاکستان سے صعوبتیں جھیلتے کچھ لوگ آج بھی اسی دیکھے گئے خواب کے تناظر میں تکمیل پاکستان کے لیئے محو سفر ہیں۔۔مگر یقین کریں کہ ان کی بھی اب بس ہو گئی ہے۔۔خدارا انکے درد کو محسوس کریں۔۔
آپ اشرافیہ ہیں۔۔آپکو حق ہے کہ آپ اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کی بقاء و خوشحالی کیلئے اربوں کھربوں خرچ کریں۔۔
آپ ریاستی امور چلانے والی ان بااختیار کرسیوں پہ براجمان ہیں جہاں سے بس فقط کن کا حکم صادر ہوتا ہے۔۔اور سب کچھ ہو جاتا ہے۔۔آپ کے احکام کے بعد پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ملک اسکا متحمل ہو سکتا ہے یا نہیں۔۔آپ کے احکام کی روشنی میں ان چیزوں کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔۔یہ چیزیں پہلے سے موجود ہیں یا نہیں۔۔۔ان تکلفات میں کوئی نہیں پڑتا۔۔
آپ کریں۔۔ہمیں ماریں۔۔ہمارے بچوں کو غلام بنایئں۔۔ہم سے ریڈیو تک کے ٹیکس لیں۔۔۔آپ کے بنگلوں میں ہمارے بچے نوکری چاکری کیلئے حاضر ہوتے رہیں گے۔۔انکو ماریں۔۔پیٹیں۔۔۔نو ایشو۔۔انکو اس حال میں رکھیں تا کہ آپ کے بچے جو ہمارے مستقبل کے حکمران اور بیوروکریٹ ہیں انکو سمجھ آئے کہ رعایا کس سلوک کی مستحق ہے۔۔۔مساجد اور عبادت گاہوں سے بھی بذریعہ بجلی کے بلز، ٹی وی اور سینماؤں کی مد میں پیسے وصول کریں۔۔
مگر۔۔۔خدا کیلئے۔۔۔
ان لوگوں کو تھوڑا سا جینے کا حق۔۔۔کچھ دیر سانس لینے کی آزادی۔۔چہروں پہ کبھی کبھار ہلکی پھلکی ہنسی سجانے ۔۔۔بچوں کی ٹوٹی پھوٹی خواہشات کو گلے لگانے اور بچیوں کو سپنے دیکھنے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔۔
بجلی ضروریات زندگی کا ایک شعبہ یے۔۔
اس جیسے 11 شعبے اور ہیں۔۔جن میں گیس، پانی، سڑک، تعلیم، صحت، صفائی اور نکاسی آب جیسے شعبے شامل ہیں۔۔
آپ یقین کریں کہ ان تمام شعبوں کی ضرورت دیہاتیوں، کچی بستیوں، ڈھوکوں، گوٹھوں اور عام شہروں کے محلوں کے باسیوں کو بھی اتنی ہی ہے جتنی آپ لوگوں کو ہے۔۔مگر موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کچھ کے پاس یہ بنیادی سہولتیں ہیں ہی نہیں۔۔مگر جن کے پاس ہیں۔۔وہ انکو استعمال کرنے سے قاصر ہوتے جا رہے ہیں۔۔کیونکہ یہ چیزیں اتنی مہنگی کر دی گئی ہیں۔۔کہ انکی دسترس سے ہی باہر نکل چکی ہیں۔۔
عالیجاہ۔۔
اگر ہم بایئک والے ایک لیٹر پٹرول پہ 72 روپے ٹیکس ادا کر کے بھی ان سہولیات کے مستحق نہیں۔۔۔تو پھر ہم وہ خود رو بوٹیاں ہیں جو یہاں خواہ مخواہ اگ آئے ہیں۔۔ہمیں تلف کر دیا جائے۔۔۔لیکن یاد رکھیں۔۔کہ ہم نہ ہوئے تو آپ اور آپکی نسلوں کا حقہ پانی کون بھرے گا۔۔آپ کیلئے زندہ باد کون کہے گا۔۔مریم نواز کی سواری کے آگے بھنگڑا کون ڈالے گا۔۔آپ کے حکم پہ ریاستی املاک کی ماں بہن ایک کون کرے گا۔۔بلاول کے پاوں تلے ہاتھ کون رکھے گا۔۔۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی یہ بادشاہی سدا قائم رہے تو پھر ہمیں زندہ رہنے دیں۔۔اور ہمارے بارے کچھ سوچ بچار کر لیں۔۔
عین نوازش ہو گی۔۔
