117

سکون قلب مگر کیسے؟/تحریر/مفتی غیور احمد

بات بالکل واضح سیدھی اور صاف ہے۔۔جتنا دل گندہ ہوتا جائے گا اتنی روح پلید ہوتی جائے گی۔۔اور جتنی روح پلید ہوتی جائے گی اتنا ایمان دل سے جاتا جائے گا۔۔اب سوشل میڈیا پر گستاخی کرنے والے مسلمان گھرانوں کے بدنصیب افراد کو ہی لے لیجیے ۔۔جن کے مطابق گستاخی کی ابتداء فحش مواد دیکھنے سے ہوئی۔۔پھر آہستہ آہستہ دل گندہ ہوتا چلا گیا۔۔۔

بالآخر دل کالا ہوگیا۔۔اور خیر کی توفیق دل سے جاتی رہی۔۔اب ظاہر ہے جب دل میں خیر کی بات نہیں آئے گی تو گند تو لازمی آئے گا۔۔بس اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ایمان سے ہاتھ دھونا پڑا۔اور دل اتنا سخت ہوگیا کہ اب ندامت اور شرمندگی کے دو آنسو تک بہائے نہیں جارہے۔۔بلکہ پورے دھڑے اور شرم و حیاء سے عاری یہ افراد علی الاعلان سینہ تان کر اپنے جرم کا اعتراف کررہے ہیں۔۔

ہائے افسوس ۔کاش انکی ماؤں نے انہیں جنا ہی نہ ہوتا۔۔

حدیث شریف میں واضح طور پر فرما دیا کہ جسم کا ایک ٹکڑا اگر ٹھیک رہا تو سارا جسم ٹھیک رہے گا۔۔اور اگر جسم کا وہ حصہ خراب ہوگیا تو سارہ جسم خراب ہوجائے گا۔۔پھر فرمایا جان لو وہ جسم کا حصہ دل ہے۔پھر پیغمبر علیہ السلام نے نہ صرف یہ کہ مرض کی نشاندہی کی بلکہ اسکا حل بھی بتلایا۔۔فرمایا کہ جسطرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے اسی طرح دل کو بھی (گناہوں کے باعث) زنگ لگ جاتا ہے۔۔البتہ ذکر الہی اور لاالہ الا اللہ کی ضربیں لگانا اسکا علاج ہے۔۔کچھ نہ کریں تو بس نمازوں کی ہی پابندی کرلیں۔۔اور کسی بھی نماز کے بعد پندرہ بیس منٹ تنہائی میں بیٹھ کر کچھ ذکر الہی کرلیں۔ یا کسی کامل ولی سے بیعت ہوکر اسکے بتلائے ہوئے ذکر میں سے کوئی ذکر شروع کرلیں۔۔۔

ان شاء اللہ سکون قلب کی دولت نصیب ہوجائے گی۔۔اور یاد رکھیں کہ جسے دل کا سکون مل گیا اسکی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں