124

ادیب کی ذمہ داریاں/ ازقلم /نمرہ توصیف

ہمارے معاشرے میں ادیب کا کردار اور اسکی کیا ذمہ داری ہے صیح طرز پر سمجھا ہی نہیں گیا۔ایک شاعر اور ادیب کا کردار ایک عام انسان سے تھوڑا مختلف اور پیچیدہ ہوتا ہے ۔ ایسے معاشرے میں تو بالکل جہاں کتابیں خریدنا اور ان کا پڑھے جانے کا رجحان بہت کم ہے۔ ادب کہ سمجھنے اور سمجھانے کا کام صرف ادیبوں اور شاعروں کا ہو۔ اس معاشرے میں پبلشر تو امیر ترین ہو لیکن ادیب غریب تر ہو ۔لکھنا ایک آرٹ اور فن ہے اسکو دوسرے کسی فن اور آرٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہر تحریر یا کہانی کا کوئی مقصد ہونا ضروری ہے۔ادیب اپنے قلم کے ذریعے وہی کچھ صفحے پر اترتا ہے جو کچھ زمانے میں ہو رہا ہوتا ہے ۔ جو کچھ برائیاں اور معاشرتی بدعنوانیاں ہمارے معاشرے کا حصہ ہوتی ہے ان کو بےنقاب کر کے ہر دور کو سنوارتا اور سجاتا ہے۔زندگی کے ہر پہلو چاہے اخلاقیات ہو چاہے زندگی جینے کے رجحانات اور طریقے نیز زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ہمارے کرنٹ ایشوز موجودہ دور کے تمام حالات کسی معاشرے کسی فرقے یا حکومت کے کسی انتظامیہ میں ظلم اور جبر کے خلاف غریبوں کے حق کے لیے پرجوش اور پوری ہمت کے ساتھ قلمی جہاد کرتا ہے ۔تاریخ کے ہزاروں واقعات میں ہمارے بڑے راہنماؤں نے جب ہمت ہار دی تب ہمارے ادیبوں نے اپنی تحریری قوت سے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اسکی بہترین مثال ترقی پسند تحریک ہے۔ ہم ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں اس میں ہمارے ادیبوں کا کردار بہت اہم ہے اسکو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا جمہوری نظام بہت اچھا نہ سہی بہت بڑا نظام ضرور ہے۔جہموریت میں جہاں ہر شخص آذاد ہے وہاں تمام لوگوں کے یکساں حقوق حاصل ہوتا ہے۔ ایک ادیب کی ذمہ داری ہے وہ معاشرے میں لوگوں کے حقوق کے لیے اپنی آواز کو قلم کے ذریعہ بلند کرے ادیب ایک قوم کا آرٹسٹ ہے وہ ہر چیز کو اپنی ایک تحریر سے سلجھا سکتا ہے۔ادیب لوگوں میں خوشی اور مسکراہٹ بنٹتا ہے اور ساتھ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کے غم سے آشناء بھی کروا سکتا ہے۔ادیب لوگوں کو اپنے قلم کے ذریعے احساس دلوا سکتا ہے کہ خوشی اور غم زندگی کا ہی حصہ ہے۔ اگر درد نہ ہوتو خوشی کی وہ قدر بالکل نہیں ہوتی جو غم ملنے کے بعد محسوس ہوتی ہے۔ ادیب تعصب نہیں پھیلاتا ہے۔ ادیب کیونکہ انسانی راہنما ہوتا ہے وہ قلم سے لوگوں کو راہ حق دیکھاتا ہے ۔وہ بتاتا ہے کہ دنیا میں ہر شخص کی ایک جیسی اہمیت ہے۔دنیا میں ہر انسان کو موت آتی ہے لیکن ادیب مر کر بھی نہیں مرتا اسکے لفظ ہمشہ زندہ رہتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں