موضوع اپنے آپ میں ایک سمندر ہے ہر بڑے لکھاری نےاس پر اپنے قلم کو حرکت دی ہے۔ موضوع اتنا وسیع ہے کہ یہ لکھاریوں کا ایک امتحان ہے کسی لکھاری نے خود یا دوسرے نے اس کی قابلیت کا امتحان لینا ہو تو اسے چاہیے کہ وقت پر لکھے ۔ کل بروز جمعہ ایک بار پھر جمعہ ہمارے انتہائی قابل اور ہر دل عزیز استاد شعلہ بیان حضرت مولانا ابو حفص طاہر کلیم صاحب جو کہ سرکلر روڈ مر کز اہل حدیث کے امیر و خطیب ہیں ۔ نہ صرف خود ایک منفرد واعظ ہیں بلکہ عالم باعمل مولانا حسین کلیم صاحب جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں انکے صاحب زادے ہیں کی امامت میں ادا کرنے کا موقع ملا۔اپنی خطابت سے زیادہ عمران خان مخالفت کے لیے مشہور ہیں آپ کہیں گے اس میں کیا خاص بات ہیں سارے ہی مولوی خان مخالفت ہیں تو عرض ہے کہ حضرت پچھلے پانچ سال میں کوئی خطبہ جمعہ یا تک کہ کوئی وعظ کا موقع ہو خان کو نہیں چھوڑتے، ہمیشہ کی طرح ایک جذباتی اور سوچنے پر مجبور کرنے والا خطاب تھا۔ چونکہ میرا خود بھی تعلق شعبہ تدریس سے ہے اور فن خطابت میں نبردآزمائی کرتا رہا ہوں ۔ اس لیے جانتا ہوں کہ پوری تقریر میں کوئی ایک ہی جملہ ہوتا ہےجو کہ آپ کو سوچنے پر مجبور کر دے۔ کل بھی ایسا ہی ہوا استاد محترم نے فرمایا کہ وقت بنانے والے کو وقت دو وہ آپ کا وقت بدل دے گا جو کہ میری اس تحریر کی بنیادی وجہ بنا۔ حقیقت بھی یہ ہی ہے آپ اپنی زندگی کا ایک دن مخلوق کی بجائے خالق کو دیں اور اردگرد کہ لوگوں کی رائے یکسر تبدیل ہو جاے گی۔ مشہور فلسفی اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد اپنے زاویہ پروگرام کے دوران گفتگو فرماتے ہیں کہ سب سے اہم چیز جو آپ کسی دوسرے کو دیتے ہیں وہ وقت ہیں۔ اس سے انمول تحفہ ہی کوئی نہیں ہے۔ایک بزرگ نے برف فروش کی اس بات کو نصحیت قرار دیا کہ جس میں وہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اے لوگوں مجھ پر رحم کرو میرے پاس وہ سرمایہ ہے جو ہر لمحہ کم ہو رہا ہے یہ ہی مثال ہماری بھی ہے۔
ہمارے اسلاف سب ہی وقت کی بہت قدر کرتے تھے بالخصوص امام تیمیہ رحمہ اللّٰہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کیا ہو۔ آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صبح فتنہ سر اٹھاتا تھا تو شام تک آپ اس پر کتاب لکھ دیتے تھے۔ آپ کسی کی کتنی ہی مدد کر دیں وقت کا متبادل نہیں ہو سکتا ۔ خالہ مرحومہ کہا کرتی تھی کہ ٹھیک ہے میں مالی طور پر مدد نہیں کر سکتی تو کیا ہوا اپنا انمول وقت ضرور دیتی ہوں جس کے لیے سامنے والا ہمیشہ ہی مشکور رہتا ہے۔ آج ہماری زندگیوں میں بے برکتیں کی کیا وجہ ہے کہ ہم وقت کہ پابند نہیں اس لیے ہمیں اب انگریزوں کے کتابوں سے وقت کی پابندی اور صبح جلدی اٹھنے کے فوائد سیکھنے پڑ رہے ہیں جبکہ ہمارے اسلاف ایک ہی دن میں مختلف کام کر لیتے تھے اور ہم ایک کام بھی ٹھیک نہیں کرپاتے
اس تحریر سے آپ کیا سبق سیکھتے ہیں وہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں لیکن خالق کا وقت خالق کو دیں اور مخلوق کا وقت مخلوق کو لیکن اس کے صلے کی توقع بھی مالک و خالق سے رکھیں انشاللہ وہ آپ کی زندگی کو مثال بنادے گا۔