پاکستان کو آزاد ہوٸے 76 سال گزر چکے مگر بدقسمتی سے ہم خاطر خواہ شرح خواندگی کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایک اقتصادی سروے کے مطابق اس وقت پاکستان کی شرح خواندگی 60 فیصد ہے اور گزشتہ آٹھ سال کے دوران شرح خواندگی میں کوٸی اضافہ نہیں ہوا۔اگر دیکھا جاۓ تو شرح خواندگی میں ہم معکوس ترقی کر رہے ہیں جو پوری قوم کے لٸے لمحٸہ فکریہ ہے۔ مگر زیاں کا افسوس تو وہاں ہوتا ہے جہاں احساسِ زیاں ہو۔ ڈنگ ٹپاٶ پالیسیوں کا نفاذ کر کے قوم کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے تعلیم کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ سالانہ بجٹ میں قلیل رقم تعلیم کے شعبے کے لٸے مختص کی جاتی ہے۔اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے بچوں کی تعلیم اور اساتذہ کی تربیت پر زیادہ تر سرمایہ غیر ملکی فنڈنگ اور این جی اوز کی امداد سے مہیا کیا جاتا ہے۔ ایسے میں فنڈ مہیا کرنے والے ممالک اور این جی اوز کی شراٸط کو بھی پورا کیا جاتا ہے جو ظاہر ہے ان کے اپنے مفاد میں ہوتی ہیں۔ ایک گزشتہ حکومت تو باقاعدہ اس بات پر فخر کا اظہار کرتی رہی ہے کہ ہم نے تعلیم کے فلاں منصوبے پر اتنے ارب کی بچت کی ہے اور فلاں منصوبے پر اتنے کروڑ بچاۓ ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لٸے حکومتیں کتنی سنجیدہ ہیں۔دوسری طرف اگر ہمارے تعلیمی معیار کو دیکھا جاۓ تو بڑی بڑی جامعات بھی عالمی رینکنگ میں کہیں نظرنہیں آتیں۔ جامعات میں قابلِ قدر تحقیقی کام بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اگر سکولوں کی سطح پر دیکھا جاۓ تو سب سے بڑا بلنڈر ہمیں امتحانی سسٹم میں نظر آتا ہے۔ ایگزامینیشن کمیشن کے تحت منعقدہ امتحانات سرماۓ کے ضیاع کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ساٹھ فیصد کثیرالانتخابی سوالات کا مطلب یہی ہے کہ کوٸی بالکل ان پڑھ بچہ بھی پاس ہو سکتا ہے۔ اوپر سے اساتذہ پر پابندی لگا دی گٸی ہے کہ وہ مڈل کلاسز تک کسی طالب علم کو فیل نہیں کر سکتے خواہ طالب علم پورا سال سکول نہ آیا ہو اور بے شک پیپر بھی اس نے خالی دیا ہو مگر اسے ہر حال میں پاس کرنا ہے۔ ایسے طلبہ میٹرک میں جس پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔دوسری طرف میٹرک میں ہمارے امتحانی سسٹم میں رٹا لگانے کی بھرپور حوصلہ افزاٸی کی جاتی ہے۔ ہمارے معیارِ تعلیم کا یہ عالم ہے کہ میٹرک میں 95 فیصد نمبر لینے والے طالب علم کو نصاب سے ہٹ کر کوٸی درخواست یا خط لکھنے کو کہا جاۓ تو وہ ایسا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ معیار پر مقدار کو ترجیح دے دی گٸی ہے۔ ہمارے ہاں ایک اور بڑا مسٸلہ تعلیم کی سمت کا تعین نہ کرنا بھی ہے۔ میٹرک تک طلبہ کی اکثریت کو یہی پتا نہیں ہوتا کہ انہوں نے میٹرک کے بعد آگے کیا پڑھنا ہے یا کون سے شعبے میں جانا ہے۔ دیہات میں رہنے والے میٹرک پاس طلبہ کی اکثریت آگے پڑھنے کی بجاۓ نوکری کے حصول میں لگ جاتی ہے۔ ایسے ”تعلیم یافتہ“ نوجوان کھیتوں میں اپنے والدین کا ہاتھ نہیں بٹاتے، جانوروں کو چارہ نہیں ڈالتے کہ یہ کام ان کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔دیگر پیشوں سے وابستہ افراد مثلا“ ناٸی، موچی، کمہار، مستری وغیرہ کے بیٹے اپنا آباٸی پیشہ اختیار کرنے سے کنی کتراتے ہیں کہ اگر یہی کرنا ہے تو تعلیم حاصل کرنے کا کیا فاٸدہ؟ وہ تصور میں اپنے آپ کو سرکاری ملازم اور وہیل چیٸر پر بیٹھا محسوس کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور تعلیم یافتہ بیروزگاروں کی تازہ کھیپ کو دیکھ کر بالآخر انہیں صبر آ جاتا ہے۔ پھر وہ کسی فیکٹری میں مزدوری کرنے لگتے ہیں، بعض اپنا آباٸی پیشہ اختیار کر لیتے ہیں۔ کچھ فروٹ و سبزی وغیرہ کی ریڑھی لگا لیتے ہیں اور باقی ماندہ کوٸی اور محنت مزدوری شروع کر دیتے ہیں۔ یوں دیکھا جاۓ تو ان کے دس بارہ سال ضاٸع ہو گٸے جوانہوں نے تعلیم حاصل کرنے میں صرف کر دیٸے۔ ہر تعلیم یافتہ نوجوان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے سرکاری ملازمت مل جاۓ۔ اکثر والدین بھی اپنے بچوں کو اسی مقصد کے حصول کے لیے تعلیم دلاتے ہیں مگر حکومت کے لٸے اتنی زیادہ مقدار میں نوکریاں پیدا کرنا ممکن نہیں۔ اس طرح غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہر سال پڑھے لکھے بیروزگاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بیروزگاری ان نوجوانوں کو فرسٹریشن اور ڈپریشن کا شکار کر دیتی ہے جس کی وجہ سے وہ بے راہروی کی طرف ماٸل ہو جاتے ہیں۔وہ جراٸم کی دلدل میں اتر کر معاشرے میں بدامنی اور بے چینی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ اس روز افزوں بڑھتی ہوٸی بیروزگاری کا ایک ہی حل ہے کہ ہمیں اپنا تعلیمی نظام ازسرِ نو تشکیل دینا چاہٸے۔ یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح پراٸمری کلاسز سے ہی بچے کے ذہنی رجحان کو دیکھتے ہوۓ اس کے مستقبل کی سمت کا تعین کر لینا چاہٸے۔ ایلیمنٹری کلاسز میں اسے مستقبل کے ٹارگٹ کے حصول کے لٸے تیار کرنے پر عمل شروع کر دینا چاہٸے۔ ایلیمنٹری کلاسز میں اردو،انگریزی، روزمرہ ریاضی اور اسلامیات کے علاوہ باقی مضامین مہارتوں پر مبنی آپشنل ہونے چاہیٸیں جن میں سے طالب علم کسی ایک مضمون کا انتخاب کرے۔ ان آپشنل مضامین میں وُڈ ورکس، زراعت،کمپیوٹر، بجلی کا کام، ریڈیو اور ٹی وی مکینکس، فرنیچر سازی اور دوسرے سکلڈ بیس (عملی مہارتوں پر مشتمل) مضامین شامل کٸے جاٸیں۔ ان مضامین کو سکولوں میں پڑھایا جاٸے اور ان کے عملی تجربات کرواٸے جاٸیں۔ ہر طالب علم کے لٸے دو گھنٹے ورکشاپ میں گزارنا لازمی ہو جہاں وہ عملی مہارتیں سیکھے۔ساٸنس کا مضمون صرف ان طلبہ کو پڑھایا جاٸے جن کا ذہنی رجحان اس طرف ہو، اگر کوٸی طالب علم کسی شعبے میں بہتر کارکردگی نہ دکھا پا رہا ہو تو ابتداٸی دو ماہ میں ہی اس کا شعبہ تبدیل کر کے مناسب شعبے میں بھیج دیا جاۓ۔ اس طرح سے جب کوٸی طالب علم میٹرک پاس کر لےگا تو وہ عملی زندگی کے لٸے تیار ہو کر معاشرے کا مفید شہری بن چکا ہو گا۔ میٹرک کے بعد ساٸنس کے طلبہ ایف ایس سی میں چلے جاٸیں جبکہ دوسرے طلبہ اگر اپنے شعبے میں مزید مہارت حاصل کرنا چاہتے ہوں تو ایف اے میں داخلہ لے لیں۔ بصورتِ دیگر اپنا ذاتی کام شروع کر دیں یا بطور کاریگر اپنی خدمات کسی ادارے کے سپرد کر دیں۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے مقصد کے حصول کے لٸے تمام ایلیمنٹری اور ہاٸی و ہاٸر سیکنڈری سکولز کو ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل سکولوں میں تبدیل کر دیا جاۓ جہاں پر اپنے اپنے شعبے کے ماہر اساتذہ کا تقرر کیا جاۓ۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ معاشرے پر بوجھ نہیں ہوں گے بلکہ معاشرے کا بوجھ اٹھانے میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل ہوں گے۔ معاشی آسودگی کے سبب جراٸم کی شرح میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور نوجوانوں کے پاس منفی سرگرمیوں کے لٸے وقت ہی نہیں ہو گا نہ ہی ان کا اس طرف رجحان ہو گا ۔ سب سے اچھی بات یہ ہو گی کہ گروتھ ریٹ میں اضافہ ہو گا اورملک جلد ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجاۓ گا۔ایک اور بڑا فاٸدہ یہ ہو گا کہ اپنی تیار کردہ مصنوعات کو فروخت کر کے ایجوکیشنل ادارے اپنے لٸے معقول فنڈز جنریٹ کر سکیں گے۔ اس طرح وہ حکومت پر بوجھ نہیں رہیں گے بلکہ حکومت کی آمدنی کا ذریعہ بن جاٸیں گے۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل