79

دیا جلاٸے رکھنا ہے/تحریر/رفیع صحرائی

دریاٸے ستلج اس وقت شدید طغیانی کی لپیٹ میں ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہیڈ گنڈا سنگھ سے لے کر بہاولنگر تک دریاٸی علاقے کی تمام زرعی زمینیں زیرِ آب ہیں۔ فصلیں تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔ ہزاروں مویشی پانی کی نذر ہو گٸے ہیں۔ لوگوں نے درختوں پر پناہ لے رکھی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں کچے اور پکے مکانات گر چکے ہیں۔ شدید گرمی اورحبس کا موسم ہے۔ پانی کی سطح پر سانپوں کی بہتات ہے۔ بہت سی قیمتی جانیں سانپوں کے ڈسنے اور ڈوبنے کی وجہ سے ضاٸع ہو چکی ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ہیڈ گنڈا سنگھ کے علاقے میں مگرمچھ بھی دیکھا گیا ہے جس نے خوف کی فضا میں اضافہ کر دیا ہے۔ 

حکومت پنجاب کی جانب سے فلڈ ریلیف کیمپ قاٸم کر دیٸے گٸے ہیں جہاں پر سیلاب متاثرین پناہ گزین ہیں۔ مگر انہیں شکایت ہے کہ حکومت پنجاب کی طرف سے خاطر خواہ انتظامات نہیں کٸے گٸے۔ 

مجھے اگست 1988 کا دریاٸے ستلج میں آنے والا پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب یاد آ رہا ہے۔ میں اس وقت نوجوان تھا۔ تحصیل دیپال پور کے بہت بڑے سیاسی رہنما مرزا احمد بیگ مرحوم اس وقت حیات تھے۔ بہت دلیر، معاملہ فہم اور دردِ دل رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں اگلے مورچوں پر عملی طور پر حصہ لیا تھا۔ ان کا تعلق منڈی ہیراسنگھ (موجودہ منڈی احمد آباد) سے تھا۔ 1988 کے سیلاب میں اس مردِ مجاہد نے سیلاب متاثرین کی عملی طور پر مدد کے لٸے دن رات ایک کر دیا۔ پاک فوج کے شانہ بشانہ سیلاب متاثرین کو ریسکیو کرتے رہے۔ قریباً دو ہفتے انہوں نے کشتی میں گزار دیٸے۔ اس تمام عرصے میں وہ گھر نہیں گٸے۔ وہ دریا پار کے دور دراز علاقوں سے متاثرین سیلاب کو محفوظ مقامات پر منتقل کرتے رہے۔ اندھیرا چھا جاتا تو اسی کشتی میں سو جاتے تھے۔ ان کے پاس دوستوں کی بہت بڑی ٹیم تھی۔ نوجوان ان کے دیوانے تھے۔ ان کے دیرینہ ساتھی حاجی محمد عبداللہ دیسی گھی والے کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش رہیں۔ شہر کے لوگ ان تک خشک راشن پہنچا دیتے۔ وہ اپنی نگرانی میں کھانے کی دیگیں پکواتے اور ٹرالیوں پر لوڈ کرواتے۔ الیون سٹارز کرکٹ کلب کی پوری ٹیم کے علاوہ شہر کے دوسرے نوجوان بھی یہ کھانا سیلاب متاثرین تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتے جبکہ مرزا احمد بیگ اپنی کشتی میں کھانے کی دیگیں لے کر سیلاب میں گھرے ہوٸے ان لوگوں تک کھانا پہنچاتے جنہوں نے درختوں اور اونچی جگہوں پر پناہ لے رکھی تھی۔ وہ اپنی املاک کو لے کر وہاں پناہ گزیں تھے۔ مرزا احمد بیگ کی شیر دل قیادت میں نوجوان 1988 میں جہادی جذبے کے ساتھ اپنے بھاٸیوں کی مدد کے لٸے عملی کاررواٸیوں میں لگے ہوٸے تھے۔ 

آج 2023 ہے۔ وہی اگست کا مہینہ ہے ۔ سیلاب کی صورتِ حال بھی کم و بیش 35 سال پہلے والی ہے۔ آج مرزا احمد بیگ جنت مکانی ہو چکے ہیں مگر اپنے پیچھے خدمت کی ایسی لازوال داستان چھوڑ گٸے ہیں جو علاقہ بھر کے لوگوں کے دلوں پر نقش ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ دو دن پہلے میں نے دوستوں کو 1988 کے واقعات یاد دلاتے ہوٸے سیلاب زدگان کی حالتِ زار کا ذکر کیا تو میری پکار پر لبیک کہنے والی سب سے پہلی شخصیت چوہدری افتخار حسین چھچھر سابق ایم پی اے کی تھی جنہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ امدادی کاررواٸیاں شروع کر دیں۔ خود موٹربوٹ لے کر سیلاب میں گھرے لوگوں کے پاس پہنچے اور انہیں ریسکیو کیا۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیم نے ظفر سعید اور حاجی محمد عبداللّٰہ کے صاحبزادے حاجی سیف اللّٰہ کی قیادت میں اپنی مدد آپ کے تحت کھانے کی دیگیں پکوا کر سیلاب زدگان تک کھانا پہنچایا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ سیلاب اترنے تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ میٹرک فیلوز 2004 ایک فلاحی تنظیم ہے جو نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ اس تنظیم کے روحِ رواں غلام اکبر بھولا کی قیادت میں  نوجوانوں نے کمال کر دیا ہے۔ یہ کھانے تیار کروا کر دریا کے اندر گھرے ہوٸے ان لوگوں تک پہنچا رہے ہیں جو درختوں اور ٹیلوں پر پناہ گزیں ہیں۔ بہت بڑے سیلاب کے دوران دریا کے سینے کو چیرتے ہوٸے ضرورت مندوں تک کھانا پہنچانا بہت بڑی نیکی ہی نہیں، جان جوکھوں اور دلیری کا بھی کام ہے۔ مرزا احمد بیگ کے بیٹے مرزا علی رضا بیگ بھی تیار کھانا سیلاب زدگان تک پہنچا رہے ہیں اور انہوں نے بھی سیلاب اترنے تک یہ سلسلہ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ حکیم سعد سرور اور چوہدری مظہر زاہدی کی قیادت میں انجمن آراٸیاں بھی متحرک اور فعال ہے۔ وہ بھی اپنی نگرانی میں کھانا تیار کروا کر سیلاب زدگان تک پہنچا رہے ہیں۔ بعض مقامی زمینداروں نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے شکار لوگوں کے لٸے دیدہ و دل فرشِ راہ کر دیٸے ہیں۔ وہ ان کے لٸے اپنی رہاٸش گاہیں آفر کر رہے ہیں۔ مویشیوں کے لٸےمفت چارہ دے رہے ہیں۔ علاقہ بھر سے لوگ دو ، تین خاندانوں کو رہاٸشی سہولیات کی پیشکش کر رہے ہیں۔ 

علاقہ منڈی احمد آباد کے لوگوں نے مواخاتِ مدینہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ کردار بدل گٸے ہیں مگر روایت وہی برقرار ہے۔ 1988 کے مجاہدوں کی اولادیں آج میدانِ عمل میں ہیں۔ 

حکومت ہر جگہ اور شخص تک نہیں پہنچ سکتی۔ حکومت کا ہاتھ بٹانا وقت کا تقاضا بھی ہے اور سیلاب زدگان کی مدد کرنا ہم پر فرض بھی ہے جسے میرے نوجوان قرض سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔ یہ وطن ہمارا ہے۔ اس کا ایک ایک انچ ہمیں پیارا ہے۔ اس کا ہر باسی ہماری آنکھوں کا تارا ہے۔ مشکل کی ہر گھڑی میں ہمیں امداد اور خدمت کا دیا جلاٸے رکھنا ہے۔

موج  بڑھے  یا  آندھی  آٸے، دیا جلاٸے  رکھنا  ہے

گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے، گھر توآخر اپنا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں