مولانا فیض الرحمن عثمانی رحمہ اللہ۔
اگست 24استاد جی رح کی یادوں کے جہاں کا آفتاب پوری آب وتاب کے ساتھ افق پہ طلوع ہوا ، سرخ رومال میں لپٹا گندمی چہرہ گویا مسکراہٹ کے خمیر سے بنایا گیا ، وادی علم وآگہی چمنستان فیض الرحمن عثمانی کے در و دیوار اس مرد قلندر کی فرقت میں آج بھی نوحہ کناں ہیں ، استاد جی رح کے چند کمالات ملاحضہ ہوں ،
شان خودداری!!
کلاس میں ایک مرتبہ تشریف لائے ، سر سے لے کر پاوں تک سفید لباس کی نورانیت جلوہ بکھیر رہی تھی ، مسکرائے ، گپ شپ کی ، ہم تو بچپن کے پنچھی تھے ، شرارتوں کے گرویدہ ، استاد جی رح دوستوں کے ساتھ بے تکلف دوست ، بچوں کے ساتھ بے تکلف یارانہ ، ہم نے ازارہ تفنن کہ دیا ، آج ہمیں سموسے کھلائیں ، سننا تھا گویا خوشی کی قوس قزاح استاد جی رح کے چہرہ کی وسعتوں پہ صف آراء ہو گئ ، جیب میں ہاتھ ڈالا ، بٹوہ میں موجود رقم ناکافی تھی ، ہمارا دل جیتنے کے لئے ہماری خواہش پوری کی ، عجیب بات فرمائ ، دیکھا دیکھا جیب خالی ہے مگر لگتا بادشاہ ہوں ، قربان جائیں استاد جی رح کی اس شان خوداری وقناعت پہ ،
علمی دبدبہ!!
کیا شان تھی ، علم کے شناور تھے ، فنون میں ہمالیہ تھے ، مختلف تصانیف آپکے علمی تبحر کا شاہکار ہیں ، تحقیق و تدقیق حوالہ جات کا مزاج اسلاف کے علمی مزاج سے مماثل تھا، اسلاف پہ اعتماد کے ساتھ ساتھ تجدیدی فکر کے قائل تھے ، اپنے ہم عمر وہم عصر علماء کے ادب واحترام تک کے داعی اور ان کے فیصلوں کو سرِتسلیم خم قبول کرتے تھے ،
انداز بیان!!
گفتگو کا آغاز ایسے کرتے تھے جیسے سامعین سےطویل وقت سے مخاطب ہیں ، جمعة المبارک کے بیانات کے آغاز میں ایک سسپنس دیتے ، سامعین کی پوری توجہ لے کر اسے توڑتے ، صف اول کے جمعہ کے نمازیوں میں سنجیدہ اور اصحاب علم کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ، استاد جی رح فرماتے تھے!! جمعہ کے بیان کے لئے کئی گھنٹے مطالعہ کرتا ہوں ،
طلبہ سے محبت!!
اپنے بچوں کی طرح طلبہ سے محبت کرتے تھے ، مزاح بھی کرتے ، بچوں کو وقت دیتے ، طلبہ بےتکلف گپ میں بھی اپنے مسائل شئیر کرتے ، رات کے کسی پہر طالبعلم فون یا میسج کر کے اپنے مسلہ سے آگاہ کرتے فوری جواب دیتے ، طالبعلم کی قدر وقیمت سے متعلق اپنی ہر گفتگو میں فرماتے ” گراں قدر طلبہ ” ، گھر میں یا اپنے گاوں بٹگرام میں طلبہ کی جماعت کو دعوت پہ بلاتے ، محبت کے یہ سلسلے خدا کرے درسگاہ نبویﷺ کے ہر طالبعلم کو میسر ہوں ،
معیار واصول!!
اس پہ کیا بات کریں ان کی موت اور جدائ نے اصول ومعیار کی وہ مثال قائم کی جو شاید قرون ثلاثہ کے بعد کسی بستی دنیا میں دستیاب ہو ، اصول پسندی پہ اپنے نفس کو مجاھدے کا اتنا عادی بنا چکا تھے کہ اپنے خون کے سامنے بھی معیار کی دیوار سکندری بن جاتے ، ڈسپلن اور مرتب امور کو ہی پسند کرتے تھے ،
دلیل وبرھان!!
دلائل کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہونے کے باوجود اگر ایک چھوٹا طالبعلم بھی اپنی بات دلیل کی روانی کے ساتھ پیش کرتا تو اس کے سامنے اپنے دلائل کے تیر وکمان پھینک دیتے ، یہ خوبی تھی ، اگر آپ مولانا فیض الرحمن عثمانی رح کو کسی موقف پہ شکست دینا چاہتے تو دلیل کی قوت وطاقت کے ساتھ دے سکتے تھے،
درخواست!!
دعا کیجئے ! پروردگار ان کے مرقد کو جنت کا ٹکرا بنائے ، خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت نصیب فرمائے ، ان کی کل اولاد اور خاندان پہ باہمی اتحاد کی مینہ برسائے ، ادارہ کے تعلیم وانتظام میں ان کے جانشین مولانا عبداللہ محمد اقبال اور مولانا سبقت منصور دامت فیوظہم اور ان کی پوری ٹیم کو ان کے نقوش کی نسبتوں سے مالا مال فرمائے ، ادارہ علوم اسلامی اسلام آباد کو اکابر علماء ومشائخ کا منظور نظر بنائے ، ہر آزمائش سے آزاد فرمائے ، امین ۔۔۔امین ۔۔۔۔