جن کی اقتداء میں رسول عر بی ؐ نے نماز فجر ادا کی
روایات میں آتا ہے دوران سفر تبوک کہ ایک دن حضور اکرمﷺ اپنے کسی کام کے باعث پیچھے رہ گئے ۔صبح کی نماز کا وقت تنگ ہو نے لگا ۔حضور ﷺ کے انتظار کے بعد صحابہ؇ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی خدمت میں گزارش کی کہ نماز فجر کی امامت فرمائیں ۔ دوران نماز حضور ﷺ کی آمد سے مطلع ہونے پر آپ مصلیٰ چھوڑ کر پیچھے ہٹنے لگے تو حضور اکرم ﷺ نے اشارے سے انہیں نماز جاری رکھنے کا حکم دیا ۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نماز جاری رکھی ۔ حضور ﷺ نے اپنے اس جلیل القدر صحابی کی اقتداء میں نماز فجر ادا کی ۔ ادائیگی نماز کے بعد حضور اکرمﷺ نے فرمایا :
’’ تم نے اچھا کیا ( کہ انہیں امامت کے لئے منتخب کیا ) کیونکہ کسی نبی نے اس وقت تک وفات نہیں پائی جب تک اس کی امت کے کسی صالح شخص نے اس کی امامت نہ کی ہو ۔‘‘ (سبل الھدیٰ والرشاد )
حضرت عبدالرحمن بن عوف قریش کی شاخ زہرہ بن کلاب سے تعلق رکھتے تھے ۔آپ واقعہ فیل سے دس برس بعد پیدا ہوئے ۔آپ کے والد کا نام عوف بن عبد عوف تھا جبکہ آپ کی والدہ کا نام صفیہ تھا ۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کا نام عبد عمرو یا عبدالکعبہ تھا ۔ اسلام قبول کرنے کے بعدآنحضرتﷺ نے بدل کر عبدالرحمن رکھ دیا ۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف ان مخصوص علما ء صحابہ میں سے ایک تھے جنہیں رسول عربی ﷺنے اپنی زندگی میں ہی فتویٰ دینے کا اختیار دے دیا تھا ۔ آپ کی دریا دلی کا یہ حال تھا کہ ایک بار انہوں نے اپنی ایک زمین چالیس ہزار میں فروخت کی اور ساری رقم انہوں نے بنو زہرہ کے ضرورت مند مسلمانوں ،مہاجرین اور نبی کریم ﷺکی ازواج میں تقسیم کردی ۔
آپ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ آپ ان دس قدسی صفات بزرگوں میں سے ایک ہیں جنہیں آنحضرت ﷺنے ایک ہی مجلس میں جنت کی بشارت سنائی ۔آپ ان چھ افراد میں سے ایک نمایاں شخصیت ہیں جنہیں حضرت عمر فاروق نے نئے خلیفہ کے انتخاب کے لئے منتخب فرما یا تھا اور ان پانچ افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے حضرت ابو بکر صدیق کے دست مبارک پر آنحضرت ﷺپر ایمان لانے کی بیعت کی ۔ آپ کو یہ بھی مقام حاصل ہے کہ دومۃ الجندل کی طرف جانے والے لشکر کی سپہ سالاری کے موقع پر حضور اکر م ﷺنے خود اپنے دست مبارک سے دستار باندھی اور فتح کی صورت میں وہاں کے بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنے کی اجازت دی ۔
ہجرت کے بعد آنحضرت ﷺنے حضرت عبدالرحمن اور حضرت سعد بن ربیع انصاری کے درمیان مواخاۃ قائم فرمائی ۔ حضرت سعد بن ربیع فرا خ دست ہو نے کے ساتھ ساتھ فیاض طبع اور وصف سخاوت سے خوب بہرہ ور تھے ، انہوں نے حضرت عبدالرحمن سے فرمایا :
’’ میرے پاس جو مال ہے وہ میرے اور تیرے درمیان نصف نصف ہے اور میری دو بیویاں ہیں ان کو دیکھ لو جو تمہیں پسند ہو میں اس کو طلاق دے دیتا ہوں ،عدت کے بعد تم ان سے نکاح کرلینا ۔‘‘
مگر حضرت عبدالر حمن کی خود داری کایہ حال تھا کہ فر مایا :
’’ اللہ تعالیٰ تمہارے مال اور اہل میں برکت دے ،مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں بس مجھے بازار کا راستہ دکھا دو تاکہ میں کو ئی کاروبار کرسکوں ۔ ‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے رسول عربی ﷺکی دعا سے اس قدر برکت عطا فرمائی کہ کاروبار کا یہ عالم تھا کہ ان کے تجارتی قافلوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ۔ آپ صحابہ کرام ؇ میں سب سے زیادہ مالدار ہو گئے ۔ کہتے ان کے تجارتی قافلے دوسرے شہروں سے اہلِ مدینہ کے لئے گیہوں ،آٹا، کپڑے برتن ، خوشبواور اشیائے ضرورت لے کر مدینے پہنچتے اور وہاں کی پیداوار کا وہ فاضل حصہ جو ان سے بچ رہتا دوسرے علاقوں میں لے جاتے تھے۔
بقول ابن حجر انہوں نے تیس ہزار غلام آزاد کئے ۔ دو سو اوقیہ سونا ، چالیس ہزار دینار اللہ کی راہ میں خرچ کئے اور پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو سواریاں راہ خدا میں دے دیں ۔ اس کے علاوہ مجاہدین کے لئے ڈیڑھ ہزار اونٹ بھی فراہم کئے ۔ ان کی زندگی میں زندہ رہنے والے سو بدری صحابہ ؇کو چار چار سو دینا ر فی کس دئیے ۔ ایک دفعہ سات سو اونٹوں پر مشتمل تجارتی قافلہ کا سامان ، کجائوں اور ناٹوں سمیت اللہ کی راہ میں دے دیا ۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک بار ان کا تجارتی قافلہ جو سات سو اونٹوں پر مشتمل تھا جن پر خوراک کے ذخیرے ،ضروریات زندگی کا سامان اور وہ تمام چیزیں لدی ہوئی تھیں جن کی ضرورت لوگوں کو اکثر پڑتی ہے ۔ جیسے ہی ان کا قافلہ مدینہ میں داخل ہوا پوری زمین ہل گئی ۔گلیاں شورو غل سے گونج اٹھیں۔ شور سن کر حضرت عائشہ صدیقہنے پوچھا کہ یہ کیسا ہنگامہ ہے ؟ جب ان کو بتایا گیا کہ حضرت عبدالرحمن کا سات سو اونٹوں پر مشتمل ایک تجارتی قافلہ گندم ،آٹا اور سامان ِ خوراک لے کر پہنچا ہے ۔ تو انہوں نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں جو کچھ دیا ہے اس میں برکت دے ۔یقینا آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے ۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف گھسٹتے ہوئے جنت میں جائیں گے ۔‘‘
اونٹوں کے بیٹھنے سے پہلے کسی نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ حضرت عبدالرحمن بن عوف تک پہنچاتے ہوئے ان کو جنت کی خوشخبری سنادی ۔ یہ مژدہ جان فزا سنتے ہی وہ حضرت عائشہکی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ ؓ نے خود رسول اللہﷺ سے یہ بات سنی تھی ؟ انہوں نے فرمایا ’ ہاں ‘۔
یہ سن کر وہ بے حد خوش ہوئے اور حضرت عائشہ کو مخاطب کرکے بولے ! ’’اگر ہوسکا تو میں کھڑ ا ہو کر جنت میں داخل ہونے کی کوشش کروں گا ۔میں آپ ؓ کو اس بات پر گواہ بنا کر میں یہ پورا قافلہ اس پر لدے ہوئے سامان ،اس کے کجائوں اور ناٹوں سمیت اللہ کی راہ میں دے رہا ہوں۔‘‘
اس روشن ،تابناک اور مبارک دن کے بعد جس دن کو انہوں نے جنت کی بشارت سنی تھی ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف مال کمانے اور اسے راہ ِ خدا میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی طرف غیر معمولی شوق اور جذبے کے ساتھ متوجہ ہوگئے۔ چنانچہ انہوں نے دونوںہاتھوں سے مال خرچ کرنا شروع کردیا ۔
آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے امہات المومنین ؆کے لئے ایک کثیر رقم کی وصیت کی ۔ حضرت عائشہ اکثر ان کے لئے دعا فرماتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو چشمہ سلسبیل سے سیراب کرے ۔ ورثا کے لئے اس قدر مال چھوڑا کہ شمار کرنے سے قاصر تھے ۔ہزاروں کی تعداد میں اونٹ ،گھوڑے اور بکریاں تھیں ۔ وفات کے وقت موجو د چار بیویوں میں سے ہر ایک کو کل ترکے کا بتیسواں حصہ اسی ہزار ملا جبکہ سونے اور چاندی کے انبار کو وارثوں میںتقسیم کرنے کے لئے کلہاڑیوں سے کاٹنا پڑا ،یہاں تک کہ کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ۔
اس عظیم شخصیت نے72برس کی عمر میں 32 ہجری میں رحلت فرمائی ۔ حضرت عثمان غنی نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا گیا ۔